اپنے وطن میں امن و اماں سے پرے ہوۓ
یہ لوگ، میرے لوگ سراسر ڈرے ہوۓ
حیرت سے دیکھتا ہے فرنگی ہمیں کہ ہم
رہتے ہیں انتشار سے پیہم بھرے ہوۓ
یکسر بھلا دیا تھا جنہیں ساتھ وقت کے
دیرینہ زخم پھر سے یہاں پر ہرے ہوۓ
لاشیں تو دیکھتے ہی رہے آپ اور ہم
زندوں میں دیکھ لیجئے انساں مرے ہوۓ
چھوڑی نہیں ہے ہم نے خدا سے کوئی امید
سجدے میں اب بھی سر ہیں زمیں پر دھرے ہوۓ
شہزین فراز