اور پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر بادل کا اک ٹکڑا توڑا۔۔۔
رات گئے سنسان سڑک پر تیز ہوا چنگھاڑ رہی تھی۔۔۔
چلتے چلتے خوف کے مارے خون رگوں میں جمنے لگا تھا
جانے کیسے بےمعنی ، بیکار سفر کے آخری دن کے آخری پَل میں
پھولے پھولے گالوں والی کمسن بچی میرے سامنے آ نکلی تھی ۔۔۔
میں نے حیرانی سے پوچھا "ننھی! رات کی تنہائی سے ڈر نہیں لگتا۔۔۔؟
وہ اک پیر پہ اچھلی ۔۔۔ میری جانب دیکھا ۔۔۔ اور پھر ہنستے ہنستے بولی
"نہیں نہیں میں تنہا کب ہوں
میرے سر میں نو کمرے ہیں ۔۔۔۔ نو دروازے اور نو لوگ
جو مجھے ملا کر دس بنتے ہیں ۔۔۔۔
ہم سب ساتھ میں کھیلتے ، ہنستے ، باتیں کرتے رہتے ہیں
غور سے دیکھو آٹھویں دروازے سے نیلی آنکھوں والی
بوڑھی عورت جھانک رہی ہے۔۔۔
چوتھے کمرے میں اک لڑکا سویا ہوا ہے۔۔۔”
میں نے رک کر پوچھا "بٹیا رانی کیا تم!
گھر کا رستہ بھول گئی ہو؟
کوئی نشانی یاد ہے ماں کا نام ، باپ کی شکل ، گلی ، محلہ ، بستی؟”
بھولی بچی جھٹ سے بولی
"چاند ، ہوائیں ، بادل ، تارے ، پھول اور میرے جیسے بچے
تھک جائیں تو جنگل کے اس پار دھویں میں کھو جاتے ہیں
جھلمھل جھلمل اڑتے جگنو دیکھتے دیکھتے رات کی گود میں سو جاتے ہیں۔۔۔”
اور پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر بادل کا اک ٹکڑا توڑا۔۔۔
جس پر بیٹھ کے وہ جنگل کو جانے والی راہ پہ جھٹ سے اوجھل ہوگئی
برسوں بیتے اس قصے کو
میں نے جی کا وہم ہی جانا
لیکن آج بھی تنہائی سے ڈر نہیں لگتا
اور اک بوڑھی عورت آٹھویں دروازے پر
دستک دیتی رہتی ہے
گلناز کوثر