بلوچستان کا امن اور علیحدگی پسند تحریکیں
اردو کالم از یوسف صدیقی
ان دنوں بلوچستان سے ایک ایسی خبر سامنے آئی جس نے سب کو چونکا دیا۔ کوئٹہ کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کو گرفتار کیا گیا جس پر الزام ہے کہ وہ کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خودکش ونگ ”مجید بریگیڈ” کا حصہ تھا اور 14 اگست کے موقع پر کسی بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس نے اپنے بیان میں منصوبے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ یہ گرفتاری ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ علیحدگی پسند تنظیمیں کس طرح تعلیمی اداروں اور عام شہری حلقوں تک اپنی جڑیں پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
بلوچستان کی تاریخ میں علیحدگی پسند تحریکیں کوئی نئی بات نہیں، لیکن حالیہ برسوں میں ان کے طریقے زیادہ خطرناک اور سفاک ہو چکے ہیں۔ بی ایل اے اور اس کے ذیلی گروہ ”مجید بریگیڈ” نے خودکش حملوں کا سہارا لیا، حتیٰ کہ خواتین کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر خودکش حملہ، نوشکی اور پنجگور کے کیمپس پر حملے اور گوادر میں سی پیک منصوبوں کو نشانہ بنانا اس بات کی مثالیں ہیں کہ یہ تنظیمیں صرف ریاستی اداروں ہی کو نہیں بلکہ غیر ملکیوں اور عام شہریوں کو بھی ہدف بناتی ہیں۔
بی ایل اے کے ساتھ ساتھ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچستان ریپبلکن آرمی (بی آر اے) اور دیگر گروہ بھی سرگرم ہیں۔ یہ گروہ زیادہ تر ریموٹ کنٹرول بم، بارودی سرنگیں، اغوا برائے تاوان اور ہدفی قتل جیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔ کئی بار یہ بجلی کے ٹاورز، گیس پائپ لائنوں اور ریلوے ٹریکس کو بھی نشانہ بناتے ہیں تاکہ ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا جا سکے۔ بظاہر یہ سب کچھ "حقوق” اور "وسائل” کی جنگ کے نام پر کیا جاتا ہے، لیکن اصل میں اس کا سب سے زیادہ نقصان عام بلوچ عوام ہی کو پہنچ رہا ہے، جو ہر روز خوف اور بے یقینی میں جی رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں شکایات اور مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، بے روزگاری، اور جبری گمشدگیوں کے الزامات نے علیحدگی پسند بیانیے کو کچھ حد تک مقامی حمایت دی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بندوق اور بم مسائل کا حل ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے سے کسی تحریک کو جواز نہیں ملتا بلکہ اس کا مقصد مزید کمزور ہوتا ہے۔
ریاستی اداروں نے پچھلے کچھ سالوں میں ان گروہوں کے خلاف بڑے آپریشن کیے اور ان کے نیٹ ورکس کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن صرف فوجی کارروائیوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا، مقامی وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانا، اور سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کی پاسداری کرنی ہوگی۔ اگر عام بلوچ شہری یہ محسوس کرے کہ ریاست اس کی آواز سنتی ہے اور اس کا مستقبل محفوظ ہے، تو کوئی علیحدگی پسند تنظیم اسے بہکا نہیں سکتی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ گروہ صرف بندوق سے نہیں لڑتے، بلکہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی اپنا بیانیہ پھیلاتے ہیں۔ لہٰذا ریاست کو آن لائن پروپیگنڈے کا مقابلہ بھی دلیل اور سچائی کے ساتھ کرنا ہوگا۔ میڈیا، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی کو اس میدان میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ نوجوان ذہن نفرت کے بیج کی بجائے امید اور ترقی کی طرف متوجہ ہوں۔
بلوچستان کا امن کسی ایک گروہ کے خاتمے سے نہیں آئے گا بلکہ تب آئے گا جب عام شہری کو انصاف، روزگار اور تحفظ ایک ساتھ میسر ہوگا۔ آج جب ایک پروفیسر کے روپ میں دہشت گردی کا نیٹ ورک بے نقاب ہوا ہے، یہ ہمارے لیے سبق ہے کہ تعلیم اور شعور کے محاذ کو مضبوط کیا جائے۔ بلوچستان کا مستقبل بندوق سے نہیں بلکہ کتاب، عدالت اور اسمبلی سے جُڑا ہے۔
یوسف صدیقی