زندگی خود کو آزماتی ہے
[سیلاب زدگان کے نام]
پرچمِ زیست کو جلاتی ہے
راکھ آنکھوں میں چھوڑ جاتی ہے
غم کی اِک اِک صلیب پر لا کر
اس قدر ہو سکے ستاتی ہے
زندگی درد سے ملاتی ہے
زندگی خود کو آزماتی ہے
کتنے آنگن اُجاڑ بیٹھی ہے
کتنے رشتے بگاڑ بیٹھی ہے
موت کے بیکراں سمندر میں
کتنے جیون اُتار بیٹھی ہے
درد کی آنچ سے جلاتی ہے
زندگی خود کو آزماتی ہے
گزرے کل کا حسیں فسانہ تھے
ہم کہاں ایسے بے ٹھکانہ تھے
آج پھیلا رہے ہیں دستِ طلب
کل تلک رشکِ ہر زمانہ تھے
روٹھ کر ہم سے مسکراتی ہے
زندگی خود کو آزماتی ہے
اب جو باقی ہے زندگی اپنی
کس نے بارش کا لطف اٹھانا ہے
دیکھ کر آسماں پہ بادل کو
ہم نے پہلے ہی سہم جانا ہے
کتنے معنی بدل کے جاتی ہے
زندگی خود کو آزماتی ہے
شازیہ اکبر