شہر صدمات سے آگے نہیں جانے والا
میں تری ذات سے آگے نہیں جانے والا
تو بھی اوقات میں رہ مجھ سے جھگڑنے والے
میں بھی اوقات سے آگے نہیں جانے والا
ایسے لگتا ہے مری جان تعلق اپنا
اس ملاقات سے آگے نہیں جانے والا
آج کی رات ہے بس نور کی کرنوں کا جلال
دیپ اس رات سے آگے نہیں جانے والا
میرے کشکول میں ڈال اور ذرا عجز کہ میں
اتنی خیرات سے آگے نہیں جانے والا
احمد خیال