ونی کاری اور بھٹو
بھٹو اور تاریخ” سے نا آشنا لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب ایسی کیا تبدیلی لائے جو سندھ تک میں نفوذ نہ کر پائی اور آجتک ونی/کاری جیسی انسانیت سوز رسمیں سماجی رویوں کا حصہ ہیں؟ میرے نزدیک وہ لوگ یا تو بھٹو صاحب کی عظمت ماننے میں بُخل سے کام لیتے ہیں یا بھٹو کی سماجی ڈھانچے تئیں خدمات سے لاعلم ہیں یا پھر رسم و رواج کو ادنیٰ سی شئے سمجھنے کی حماقت میں مُبتلا ہیں۔
تمدنی رویئے کسی بھی تہذیب کے رسم و رواج کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہر تہذیب کی اپنی ساخت اور جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ھے، جس تہذیب میں نئے آمدہ لوگوں اور رویوں کیلئے جگہ نہیں ہوتی وہ پھل پھول نہیں سکتی۔ سندھ یا سندھو ہندوستان کی قدیم ترین تہذیب ھے، اسکی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ لفظ ہند دراصل سندھ سے نکلا ھے اور معلوم تاریخ کیمطابق وہ ایرانی تھے جنہوں نے سندھو دریا کی نسبت سے اس سرزمین کو پہلی بار سندھو کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے سندھ رہ گیا۔۔
کسی بھی تمدنی تہذیب میں رسم و رواج انسانوں کے ایک دوسرے کیساتھ حقوق و فرائض کو وضع کرتے ہیں لیکن ہر دور میں زور آور اپنے حقوق تو مکمل لیتے رہے مگر طاقت کے ذور پر کچھ نا اصافیوں کا احیاء بھی کرتے رہے جو آگے چل کر”ونی اور کاری” جیسی رسمیں بنیں۔ ایسی رسموں کا اطلاق کمزور طبقات پر کرنے کیلئے طاقتوروں کو اپنے طبقے سے بے رحم مثالیں کھڑی کرنا پڑتی ہیں پھر جا کر نِچلے طبقات میں خود سپُردگی پیدا ہوتی ھے۔ رسم و رواج انسانوں میں زبان کیطرح بتدریج اترتے ہیں اور علم و آگہی انکے لیئے زھرِ قاتل ھے۔ جہل کیطرح علم و آگہی بھی جذب اور خود سپردگی کی مرہونِ منت ھے۔ جو محمدؐ رسول اللہ پچاس برس تک مکے والوں کو کچھ نہیں سکھا پائے انہیں پہلے ہی دن مدینے والوں نے خود سپردگی کر کے ناقابلِ شکست حاکم بنا دیا۔ لہذا بھٹو کی سماجی خدمات کو سمجھنے کیلئے انسانی رویوں، جبر اور خود سپردگی کے اس دلچسپ کھیل کی بنیادی سمجھ بوجھ درکار ھے۔
پہلی بات تو یہ کہ بھٹو صاحب کو سندھ نہیں بلکہ پنجاب نے وہ عظمت دی جس پر آج وہ براجمان ہیں۔ بھٹو صاحب کا انقلابی پروگرام کبھی جنم نہ لے سکتا اگر پنجاب خود سپُردگی نہ کرتا۔ دوسری طرف سندھ بڑی لچپال سرزمین ھے۔ اس ہمیشہ اپنے بیٹوں کی عزت رکھی ھے اور انہی دو صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں بنیں، باقی بلوچستان میں وڈیروں اور سرحد میں باچا خان کی جماعت نے حکومت بنائی۔ بات کیونکہ سماجی مسائل پر ہو رھی ھے لہذا بھٹو صاحب کی سماجی خدمات پر فوکس رکھتے ہیں تا کہ مضمون ٹریک پر رھے۔
اگر پاکستانیوں نے خود سپُردگی کی تو زوالفقار علی بھٹو نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے انہیں بھرپور جواب دیا۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں ناصرف تعلیم مفت کی بلکہ غریب کے بچے کو ان اداروں تک پہنچانے کا ذمہ بھی بھٹو نے اپنے سر لے لیا اسطرح اس نے علم و آگہی کی روشنی کو نچلے طبقات کی جھونپڑیوں تک پہنچا دیا۔ انکی نسل کو معاشی تحفظ دینے کیلئے اس نے ان پر پاسپورٹ کی سہولت کو حلال قرار دیا اور لاکھوں خاندانوں کو بیرون ملک محنت مزدوری کے مواقع فراہم کیئے۔ بھٹو نے اسلامی بلاک اور اسلامی بنک کی بات چھیڑ کر اسلامی سربراہی کانفرنس میں عالمی قوتوں کو اپنے خون کا پیاسہ بنا لیا مگر مشرقِ وسطیٰ، لبیا، مصر اور بیروت میں اپنے لوگوں کیلئے لاکھوں نوکریوں کا انتظام کر لیا۔ کئی دانشوروں کے نزدیک یہی کانفرنس بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک لیگئی مگر میرے آپکے گھروں کے چولھے جلا گئی۔
مزدوروں کو تحفظ دینے کیلئے بھٹو نے ٹریڈ یونینز کو پھرپور طاقت دی اور بندہِ مزدور کی مزدوری کے اوقات 12 سے 8 گھنٹے کروائے جسکی وجہ سے آج تک سرمایہ دار اسکی جماعت کے دشمن ہیں۔ ملکیت کیبجائے سنِ بلوغت کو ووٹ کا حق بنانا، ووٹر کی عمر 21 سے 18 سال مُختص کرنا، عورتوں کی متناست نمائیندگی اور ووٹ کا باقاعدہ حق، بڑے سرمایہ دار اداروں کو قومیانہ، نیز ہر وہ کام بھٹو صاحب بے دریغ کرتے گئے جس سے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آتی۔ ان خدمات کا اجر بھی ملا اور بھٹو صاحب کو 1977 کے انتخابات میں واضع برتری انہی طبقات کیوجہ سے ملی مگر عالمی سامراجی قوتیں، سرمایہ داروں سمیت ہر وہ طبقہ جسے جوتے کی نوک پر رکھ کر بھٹو صاحب نے طبقاتی نظام کو چیرا تھا اکٹھے ہو گِئے اورحقیقی تبدیلی پر کُتوں کی فوج چھوڑ دی گئی۔ وہ انقلاب جس نے ہندوانہ رسم و رواج اور معاشی نظام کی پرتیں ہلا کر رکھ دیں اسے بوٹوں تلے روند کر بھٹو کے ستائے ہووں کو کھُل کھیلنے کا موقع دیا گیا تاکہ سماجی تغیر اپنی جگہ پر واپس پلٹ آئے مگر یہ ہو نہ سکا۔
بھُٹو کی پھانسی پر جھُولتی لاش اس ملک کے غریب اور مظلوم کیلئے حُریئت و غیرت کا وہ استعارہ بن گئی جس نے وقت کے پہیے کی واپسی کا راستہ حرفِ غلط کیطرح مٹا دیا۔ بھٹو کا دور کہنے کو انسانی آزادی کے صرف چھ سال تھے مگر وہ ہندوستان کی تاریخ اور رسم و رواج کی بُنت کے چھ ہزار سالوں پر بھاری پڑ گئے۔ بھٹو صاحب نے جوتے کی ٹھوکر سے ہزاروں برس پرانے "مِٹی کے رسم و رواج” نامی برتن میں آگہی کا در بنا دیا جو لاکھ کوشش کے باوجود کوئی بند نہیں کر پایا۔ آج اگر کسی جرنیل کو سوشل میڈیاء پر گالی پڑتی ھے تو اسے گالی دینے والے پر نہیں بلکہ گالی کی جرآت دینے والے بھٹو پر غصہ آتا ھے۔ آج اگر 8 گھنٹے مزدوری اور 4 گھنٹے اوور ٹائم کی تنخواہ برابر دینی پڑتی ھے تو سرمایہ دار بھٹو کو کوستا ھے جس نے انکی جیب پر ہاتھ ڈالا۔ بھٹو کی ٹھوکر سے بنا آگہی کا در آج کعبے کا شگاف بن گیا ھے۔ اس میں سونا بھرو یا سیسہ، اگر چھپانے کی کوشش کرو گے تو یہ پھٹ جائے گا اور یہی انعام ھے ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات کا۔ آج اسکے بدترین دشمن بھی اسکی عظمت کے گُن گانے پر مجبور ہیں۔آج بھٹو کی سوچ اپنی جڑ پکڑ چکی ھے اور سچائی کا چھپانا ممکن نہیں رہا۔ چھ برس میں اگر بھٹو صاحب ونی/کاری کو ختم نہیں کر سکے تو کیا ہوا انہی کی جماعت نے ان گھٹیا سماجی رواجوں کیخلاف قانون سازی کی ھے۔ اب اگر فون کر کے انکی اطلاع دیتے آپکی ٹانگیں کانپتی ہیں تو بھٹو صاحب تو اپنی قبر سے نکل کر تھانے اطلاع دینے سے رھے۔ ویسے بھی جب سے دشمنوں نے بھٹو صاحب کے بیوی بچوں کو انکے اردگرد سجایا ھے بھٹو صاحب جیالوں کی راہنمائی سے بے فکر ہو کر امریکہ کی لائبریریوں میں دیکھے جاتے ہیں۔
علی عبداللہ ہاشمی