پنہاں سے درد سے جو دکھے بار بار دل
روکر کہوں میں اے مرے پروردگار، دل
دھڑکے ہے زور زور سے کیوں اس کو دیکھ کر؟
جب ہے رموزِ عشق سے میرا گنوار دل
جب سے وہ ساتھ لے گیا موسم بہار کا
تب سے پڑا ہوا یہ بے برگ و بار دل۔
اصرار دوستوں کا ہے چل ساتھ گھومنے
لیکن کہاں پھروں میں لیے سوگوار دل
تب سے نہ مصلحت سے کیا میں نے فیصلہ
جب سے مرے ذہن پہ ہوا ہے سوار دل
اس دل کی منتوں پہ بھی دیکھا نہ پلٹ کر
وہ حسن کی دیوی کہاں ناکردہ کار دل
سوچا کہ اس کو بھول کے کرلوں گا صبر میں
اور پھر خیال آیا کہ ابصار یار، دل
احمد ابصار