مری خامشی میں بھی اعجاز آئے
کسی سمت سے کو ئی آواز آئے
وہ چہر ہ نہ جانے کہاں کھو گیا ہے
کہیں سے کبھی کوئی دم ساز آئے
کسی نے تراشا نہ اس دل کا پتھر
مرے شہر میں کتنے بت ساز آئے
وہ اڑ جائے نیلی رگوں سے نکل کر
مرے درد کو اتنی پرواز آئے
سزا بے گناہی کی میں کاٹتی ہوں
کہاں مجھ کو جینے کے انداز آئے
محبت اے بے دید پاگل محبت
ہمیں چھوڑ دی، دیکھ ہم باز آئے
دوا تشنہ کامی کی لے کر وہ نیناں
کبھی تو وہ آئے ، بصد ناز آئے
فرزانہ نیناں