اردو غزلیاتسرفراز آرششعر و شاعری

جہاں نوردوں کو دنیا میں جو بھی باغ ملا

سرفراز آرش کی ایک غزل

جہاں نوردوں کو دنیا میں جو بھی باغ ملا
اگر علم نہ ملا تو وہاں چراغ ملا

یہ کار عشق ہمی سے ہے معتبر جن کو
جبیں پہ بوسہ ملا اور لبوں پہ داغ ملا

ہم ایک دوجے کا منہ نوچنے ہی والے تھے
خدا کا شکر ! ہمیں ہجر کا سراغ ملا

زمانہ میری خموشی سے تھک گیا تو اسے
مری کتاب کو پڑھ کر مرا دماغ ملا

وگرنہ کار جہاں سے نجات کس کو ہے ؟
تری تمنا میں مجھ کو بڑا فراغ ملا

ہمارے عشق کے چرچے پہ اس کے ہونٹ کھلے
ہماری اینٹ سے دیوار کا سراغ ملا

مری شکست کا اعلان جب ہوا آرش
تو ایک دوست کے شانے پہ ایک زاغ ملا

سرفراز آرش

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button