آہ زینب
میں ننھی کلی ابھی بابا کا انتظار کر رہی تھی
پلٹ کر جب بابا میرے آۓ گا
کون بتاۓ گا اسے کیسے گزرے میرے دن
میں بابا کے آنگن کی خوبصورت کلی تھی
بابا کے جاتے ہاس درد کا گمان نہیں تھا
میں کیسی تڑپی ہوس کی درندگی میں
بابا دردنگی کر کے کوڈے میں پھیکا
میرا بچپن وحشی جانور کو نظر نہ آیا
ترس بھی نہیں کھایا کسے دکھڑا سناؤں
مسل کر گل کو کیا ملا
کیا چین کی نیند آتی ہوگی
میری چیخیں نہیں تڑپاتی ہوں گی
وحشی کو بچپن میرا کھوکھلا کر کے مار ڈالا
کیا ملا اس وحشی جانور کو
رب کو کہو بیٹی کی عزت احترام نہیں
بیٹی کو بسنے کا حق نہیں
بابا میں مر گئی یہ سن کر کمر خم ہوگیا ہوگا
تسلی کیسے میری یادوں کی تلاوت کرنا
آنسو نہیں رک رہے میرے بابا کیا کہوں
زینب مر کر تیرے دل میں زندہ ہیں بابا
خدیجہ آغا