- Advertisement -

کسی بھی سنگِ ملامت سے جی نہیں بھرتا

سعید خان کی اردو غزل

کسی بھی سنگِ ملامت سے جی نہیں بھرتا
جنونِ دل ترا وحشت سے جی نہیں بھرتا

اِدھر جَبیں پہ سنبھلتے نہیں مرے سجدے
اُدھر خدا کا عبادت سے جی نہیں بھرتا

کسی کو حرصِ ستائش کسی کو حرصِ کرم
یہاں کسی کا ضرورت سے جی نہیں بھرتا

یہ دل بھی کیا ہے کہ اس بے قرار وحشی کا
کسی طرح کی ریاضت سے جی نہیں بھرتا

بلا رہی ہیں مگر کب سے منزلیں مجھ کو
وہ ہم سفر ہے مسافت سے جی نہیں بھرتا

وہ محوِ شوق ہے کب سے مگر مرے اندر
عجب خلا ہے محبت سے جی نہیں بھرتا

کوئی نشہ ہے کہ احساس پر مسلط ہے
تری ادا ، تری صورت سے جی نہیں بھرتا

سعید خان 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سعید خان کی اردو غزل