جو گریزاں ہو نہ بیباک ملے
ایسے پتھر سے کوئی خاک ملے
یار وحشت کا مزا ہی جب ہے
دل بھی دامن کی طرح چاک ملے
اب ہمیں فرصتِ گریہ بھی نہیں
اور کیا وقت کا ادراک ملے
کچھ تو آوارہ ہے دل بھی اپنا
کچھ ہمیں لوگ بھی بیباک ملے
زخم ہوتے تو رفو کرتے ہم
کیا کریں قلب و جگر چاک ملے
حسن پھر دل کے مقابل ہے سعید
جیسے چالاک سے چالاک ملے
سعید خان