قربت کا سبب ہو بھی تو کھُل کر نہیں ملتے
کچھ یہ بھی ستم ہے کہ ہم اکثر نہیں ملتے
بے مہریِ حالات یا قسمت کا لکھا ہے
دل جس سے بھی ملتا ہے مقدر نہیں ملتے
کچھ خانہ خرابوں کی خبر ہو تو خبر ہو
ہم ڈھونڈنے والوں کو کبھی گھر نہیں ملتے
موسم کا بُرا ہو سرِ بام شبِ ہجراں
اب یاد کے جگنو بھی منور نہیں ملتے
کچھ خواب جو خوشبو کی طرح پھیل چکے ہیں
اب مجھ کو مری ذات کے اندر نہیں ملتے
اس شہرِ خدا ساز میں مجنوں کی دعا سے
بت اتنے زیادہ ہیں کہ پتھر نہیں ملتے
سعید خان