- Advertisement -

بات دیدہ کہیں شنیدہ کہیں

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

بات دیدہ کہیں شنیدہ کہیں
آؤ اس شوخ کا قصیدہ کہیں

دل کا قصہ طویل ہوتا ہے
اس کے اوصاف چیدہ چیدہ کہیں

اس کی ہر اک ادائے رنگیں کو
زندگی پر خط کشیدہ کہیں

اور ہوتی ہے رسم شہر خیال
کیوں کسی کو ستم رسیدہ کہیں

کب وہ دشت وفا میں آیا تھا
کیوں اسے آہوئے رمیدہ کہیں

اس کی ہر بات کو کہیں تلوار
اپنے سر کو سر بریدہ کہیں

اس کے شعلوں کو دیں صبا کا نام
اپنے ہر رنگ کو پریدہ کہیں

جام کو جام جم سے دیں نسبت
اپنے خوں کو مئے چکیدہ کہیں

غیر سے دوستی مبارک ہو
اور اب کیا وفا گزیدہ کہیں

اب وہ رنگ جہاں نہیں باقیؔ
کس سے حال دل تپیدہ کہیں

باقی صدیقی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
راز احتشام کی ایک اردو نظم