ہوا چلی تو بے کلی مرے قریب آگئی
اس الگنی کی اوڑھنی مرے قریب آگئی
یہ کس نے میرے سوچنے کا زاویہ بدل دیا
یہ کس طرف سے روشنی مرے قریب آگئی
چلی گئی جو زندگی سے میری ایک کم سخن
تو یہ ہوا سخنوری مرے قریب آگئی
کسے کسے پکارتی رہیں مری اداسیاں
کوئی نہ تھا تو بے کسی مرے قریب آگئی
تیرگی میں طے کئے حیا نے سارے فاصلے
دیا بجھا تو روشنی مرے قریب آگئی
دوا کے ساتھ زہر بھی رکھا گیا ہے میز پر
قضا بہ رنگِ خود کشی مرے قریب آگئی
پھر اس کے بعد بانسری کے سارے راگ کھوگئے
بچھڑ کے اس سے خامشی مرے قریب آگئی
تری گلی سے آج میں اٹھا ہوں دیکھ کس طرح
کہ شہر کی گلی گلی مرے قریب آگئی
طارق قمر