ہم نے مل کر جناب لوگوں سے
غم اٹھائے خراب لوگوں سے
راہِ تعبیر میں کئی رہزن
چھین لیتے ہیں خواب لوگوں سے
سنگ باری ہوئی دل و جاں پر
ہم نے مانگے گلاب لوگوں سے
یوں تو دشمن تھی میری تنہائی
پھر بھی پایا عذاب لوگوں سے
دستِ قدرت نے آن گھیرا جب
وقت لے گا حساب لوگوں سے
سَو طرح کے سوال پوچھے گا
جس نے مانگا جواب لوگوں سے
علم والوں کے سامنے جاہل
کر رہے ہیں خطاب لوگوں سے
ہاتھ میں اسلَحَہ چلا آیا
چِھن گئی جب کتاب لوگوں سے
منزہ سید