- Advertisement -

کفن میں ایک سو ایک سال

ایک افسانہ از دیوندر ستیارتھی

کفن میں ایک سو ایک سال
(ایک)

ناگ دیو مر گیا۔۔۔ اب وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔

کل رات میں نے اس کی ارتھی دیکھی۔ سفید کفن میں رسیوں سے کس کر بندھا ہوا اس کا جسم ارتھی اٹھانے والوں کے کندھوں پر تیرتا ہوا نکل رہا تھا۔

میں ارتھی کے ساتھ نہ جا سکا۔

دماغ نے میرے جسم سے الگ ہو کر کہا۔ ’’جاؤ، ناگ دیوتا کو چِتا پر جلتے دیکھ آؤ۔‘‘

میں ارتھی کے ساتھ جانے والوں کی آہ و زاری سنتا رہا۔

انجام رسیدہ داستان کی طرح میرا دماغ ٹھنڈا ہو گیا۔

اندھیرے میں خارش زدہ کتا اسی طرح بھونکتا رہا جیسا کہ وہ کبھی تندرستی میں بھونکا کرتا تھا۔

سردار کیفے میں چائے پینے والے اسی طرح چائے کی چسکیاں بھرتے رہے۔

میرے ہاتھ میں وہ ہفتہ وار اخبار تھا، جو ہر مہینے سٹوری سپلیمنٹ شائع کیا کرتا ہے۔

اس اخبار کا یہ شمارہ وہی تھا، جس میں اس مہینے کاسٹوری سپلیمنٹ شائع ہوا تھا۔

اخبار کے معمولی شمارے کی قیمت پچاس پیسے ہوتی ہے۔ سٹوری سپلیمنٹ والے شمارے کی قیمت پچھتّر پیسے ہے۔ پچیس پیسے میں سٹوری سپلیمنٹ مہنگا نہیں۔ کبھی کہانی میں ’’اوپر، نیچے، درمیان‘‘ کی سی کیفیت، کسی میں ضد اور تندی کا تال میل، کسی میں منہ چڑانے کی سی نفسیاتی الجھن، کسی میں جسم کا دباؤ، کسی میں روح کی پرواز۔

دیوار کی کہانی لکھتے وقت دیوار بن جانا پڑتا ہے، اندھیرے کی کہانی لکھتے وقت اندھیرا۔

شبد بدکتے ہیں، رنگ ڈرتے ہیں۔ کیا کہانی گلوکوز کے انجکشن کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے۔ جیسا کہ اس مہینے کی سٹوری سپلیمنٹ کے اداریے میں لکھا گیا ہے۔

یہ تو ناگ دیو بھی مانتا تھا کہ محض الفاظ کی بندش کافی نہیں۔ کہانی تو احساس کا سفر ہے۔

واقعی ناگ دیو نے زہر کو ہضم کرنے کا گُر سیکھ لیا تھا۔

اگلے مہینے کی سٹوری سپلیمنٹ میں میری کہانی چھپے گی۔ اس میں ناگ دیو کی تصویر پیش کی جائے گی۔

اس کہانی کا تال میل اس درویش سے ملایا جائے گا جو پہلے گانجا پیتا ہے اور پھر سنکھیا کھانے کا ابھیاس کرتے کرتے سانپ سے زبان ڈسوانے کا کرشمہ دکھانے لگتا ہے۔

ایک سو ایک سال کا ہوکر مرا ناگ دیو۔

(دو)

اس کے گلے میں پچھلے سال ایک سو ایک پھولوں کا ہار پہنایا گیا تھا اور جب اس نے سپیرے کی طرح جھولے سے سانپ نکال کر اس سے اپنی زبان ڈسوائی تو دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔

ناگ دیو کی ایک سو ایک ویں سالگرہ کے موقع پر جتنے حضرات نے اس کو خراج تحسین ادا کیا، ان کی مشترکہ آواز یہی تھی کہ ناگ دیو کے روپ میں درویش آخری منزل تک پہنچ چکا ہے۔

سردار کیفے کی میز پر بیٹھے بیٹھے میں نے وہ کہانی پڑھی، جس میں ہار سنگار سے دوپٹّہ رنگنے کا ذکر کیا گیا تھا۔

’’پیچھے کون جا سکتا ہے؟‘‘

یہ تھا دوپٹہ کہانی کا عنوان۔ یہ ایک حملہ آور کی داستان تھی، جو دولت لوٹ کر چلا گیا۔

’’میرا وطن وہی ہے!‘‘

یہ تیسری کہانی تھی، جس کا خمیر ڈھائی ہزار سال پہلے کے اتہاس سے اٹھایا گیا تھا۔

ناگ دیو زندہ ہوتا تو کردار، گفتار اور عمل کی ہم آہنگی کی کسوٹی پر کستے ہوئے ان کہانیوں کے احساس پر اپنی رائے دیتا۔

آج کوئی ناگ دیو ہیرو نہیں بن سکتا! اس طرح کا بیان دینے کی حماقت میں نہیں کروں گا۔

’’خدا کا قتل ہوگیا اور ہم سب اس کے قاتل ہیں۔‘‘ یہ قول سب سے پہلے میں نے ناگ دیو سے سنا۔

ناگ دیو کی کہانی ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے، جس کے اندر اتہاس دھندلے چہرے کے باوجود پوری طرح روشن ہے۔

وہ کہا کرتا تھا ’’اتہاس لمحاتی نہیں ہوتا۔‘‘

وہ ایک صفر کی موت مرنے کے خلاف تھا۔

وحشت کے ہر لمحے کے اندر اسے اتہاس کے دیوتا کی آواز سنائی دیتی۔۔۔

’’شانتی! شانتی! شانتی!‘‘

ناگ دیو نے گروہ بندی کی دوڑ میں دوڑنے سے اپنے آپ کو الگ نہ کرلیا ہوتا تو اس کے نیچے بہت اونچی کرسی ہوتی۔

تنہائی کا جو راستہ ناگ دیو نے اپنایا، اسے کچھ لوگ زوال کا راستہ قرار دیتے ہیں۔

’’حواس کی دھار پر زندہ رہنا ہی زندگی ہے۔‘‘ ناگ دیو اکثر کہا کرتا تھا۔

شاید اسے میرا چہرہ پسند نہیں تھا۔ ادھر ادھر سے اٹھائی ہوئی باتیں اسے اچھّی لگتی تھیں۔

’’تم کب اپنے کو قبر سے باہر نکال کر دیکھو گے۔‘‘ یا

’’ان لوگوں کو یہاں سے بھگا دو، جو پانچ منٹ بھی اپنی تعریف کیے بغیر نہیں گزار سکتے۔‘‘ یا

’’ ہمارا بہترین دوست ہمارا جسم ہے۔‘‘

ناگ دیو کو نہ نمائشی جملے پسند تھے، نہ گستاخ مذاق، نہ اکتا دینے والے لطیفے۔

وہ یہ مانتا تھا کہ غصّے کا دائرہ بہت محدود ہے۔

’’محبت کی رچنا تو روح کی گہرائی میں ڈوب کر ہی ہو سکتی ہے۔‘‘

یہ کہتے کہتے ناگ دیو اسی عورت کا ذکر کرنے لگتا، جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ سانپ کو مار کر چھت پر پھینک دے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دے۔

غصّے کی رنگ بھومی سے دور رہ کر ناگ دیو کی موت ہوئی۔

شور کی رنگ بھومی سے اسے نفرت تھی۔

(تین)

میں جب بھی اس سے ملتا، وہ اس ناٹک کا ذکر کیے بغیر نہ رہتا جس میں ریت کے ٹیلے میں کمر تک دھنسی ہوئی عورت دکھائی گئی تھی۔ دھوپ اور لُو سے جھلسے ہوئے چہرے والی عورت، جو ٹیلے کے پیچھے بیٹھے ہوئے اپنے خاوند سے باتیں کررہی ہے، اپاہج خاوند اخبار پڑھ رہا ہے۔ دوسرے منظر میں عورت گلے گلے تک ٹیلے میں دھنسی جاتی ہے۔ عورت تسلسل سے باتیں کرتی رہتی ہے۔ اناپ شناپ باتیں۔۔۔ خوف اور حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھیں ہم سب کو دیکھ رہی ہیں۔ ویسے ناٹک میں کسی حرکت کا احساس نہیں ہوتا۔

ناٹک کار کا نام ناگ دیو نے بھلا دیا تھا۔ لیکن بیمار ذہن کی الجھی ہوئی باتیں اسے یاد رہ گئی تھیں۔

اسے اکثر یہی احساس ہوتا کہ اخبار پڑھنے والا اپاہج وہ خود ہے۔ اور اب اس عورت کا چہرہ بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے۔

(چار)

سٹوری سپلیمنٹ کی پانچویں کہانی کا عنوان ہے ’’عورت کہاں ہے؟‘‘

اسّی سال کی عمر میں ایک شخص شادی کرتا ہے چالیس برس کی عورت سے، جو اب تک نوکرانی رہی ہے۔

بوڑھا شوہر چاہتا ہے کہ وہ نوکرانی سے مالکن بن جائے۔ لیکن وہ مالکن نہیں بن پاتی۔

بوڑھا شوہر جانتا ہے کہ وہ عورت کو وہ کہانی سنائے جو اس نے اب تک کسی کو نہیں سنائی۔

لیکن وہ کہانی سننے کو تیار نہیں ہوتی۔

بوڑھا شوہر ہر وقت عورت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔

وہ یہ سوچ کر شرمندہ نہیں ہوتا کہ اس نے بُڑھاپے میں شادی کا ڈھول گلے میں ڈالا۔

بوڑھا شوہر ہر وقت محسوس کرتا ہے کہ وہ جِلاوطن ہے اور یہ عورت اس کا وطن ہے، لیکن وہ عورت کو ہر وقت اپنے آپ میں رکھنے کے لیے راضی نہیں کر پاتا۔

بوڑھا شوہر ہروقت عورت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔

وہ یہ سوچ کر شرمندہ نہیں ہوتا کہ وہ ہر وقت کام سوتر پڑھتا رہتا ہے اور تنہائی میں سانپ سے اپنی زبان ڈسواتا رہتا ہے۔

وہ کبھی نہیں سوچتا کہ عورت اس سے دور کیوں بھاگتی ہے۔

عورت کی چاہ، عورت کی یاد اسے بھی لگتی ہے۔ جھوٹ اور سچ کا تال میل، غصّے اور محبت کی داستان۔

وہ سوچتا ہے کہ اس کی زندگی میں عورت نہ آئی ہوتی تو اس کی کہانی کتنی بے ربط اور اوٹ پٹانگ ہوتی۔

اسے وہ دن یاد آتے ہیں، جب اسے پھانسی کی کوٹھری میں رہنا پڑا تھا۔

(پانچ)

کتنی دلچسپ کہانی ہے۔۔۔ پھانسی کی سزا ٹل گئی۔ عمرقید ہو گئی۔

کالے پانی میں گزارے ہوئے لمبے سال گھومتے پہیّوں کی طرح اس کے ذہن میں حرکت کرتے ہیں۔

(چھ)

کالے پانی سے واپس آکر کرانتی کا مارگ اپنانے سے اس نے اپنے آپ کو دور رکھا اور عورت کی یاد پر غلبہ پانے کی کوشش میں سانپ سے اپنی زبان ڈسواتا رہا۔

(سات)

یہی تو ہے ناگ دیو کی کہانی۔

لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے ناگ دیو کی زندگی میں ہی اس کی موت کا نقشہ کھینچ دیا۔

اب میرے لیے لکھنے کو کیا رہ گیا ہے؟ میں تو یہی عرض کر سکتا ہوں کہ میں نے تو ہر سڑک پر ارتھی نکلتے دیکھی۔ لیکن سردار کیفے کے اندر سے یہ ارتھی دیکھنے کا میرا پہلا تجربہ ہے۔

اب یہ منظر ہمیشہ میری آنکھوں میں تیرتا رہے گا۔

سفید کفن میں رسّیوں سے لپٹے ہوئے ایک سو ایک سال۔ ایک بوڑھے کرانتی کاری کا جسم۔

دیوندر ستیارتھی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از دیوندر ستیارتھی