ہوئیں رسوائیاں جس کے لیے چھوٹا دیار اپنا
ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا
خدا جانے ہمیں اس بے خودی نے کس طرف پھینکا
کہ مدت ہو گئی ہم کھینچتے ہیں انتظار اپنا
ذلیل اس کی گلی میں ہوں تو ہوں آزردگی کیسی
کہ رنجش اس جگہ ہووے جہاں ہو اعتبار اپنا
اگرچہ خاک اڑائی دیدئہ تر نے بیاباں کی
ولے نکلا نہ خاطر خواہ رونے سے غبار اپنا
کہا بد وضع لوگوں نے جو دیکھا رات کو ملتے
ہوا صحبت میں ان لڑکوں کی ضائع روزگار اپنا
کریں جو ترک عزلت واسطے مشہور ہونے کے
مگر شہروں میں کم ہے جیسے عنقا اشتہار اپنا
دل بے تاب و بے طاقت سے کچھ چلتا نہیں ورنہ
کھڑا بھی واں نہ جاکر ہوں اگر ہو اختیار اپنا
عجب ہم بے بصیرت ہیں کہاں کھولا ہے بار آکر
جہاں سے لوگ سب رخت سفر کرتے ہیں بار اپنا
نہ ہو یوں میکدہ مسجد سا پر واں ہوش جاتے ہیں
ہوا ہے دونوں جاگہ ایک دو باری گذار اپنا
سراپا آرزو ہم لوگ ہیں کاہے کو رندوں میں
رہے ہیں اب تلک جیتے ولے دل مار مار اپنا
گیا وہ بوجھ سب ہلکے ہوئے ہم میر آخر کو
مناسب تھا نہ جانا اس گلی میں بار بار اپنا
میر تقی میر