بڑی مشکل تھی آسانی سے پہلے
یہ دریا برف تھا پانی سے پہلے
شعورِ جذبِ جسمانی سے پہلے
بہت خوش تھا میں نادانی سے پہلے
مری شاخوں پہ آنکھیں ہی نہیں تھیں
ترے لمسِ خیابانی سے پہلے
تمھاری دیویاں بھی محترم تھیں
مری آنکھوں میں عریانی سے پہلے
ہمارے ہاتھ میں پگھلا تھا لوہا
طلسماتِ سلیمانی سے پہلے
کشادہ ظرف دے ربِ محبت
محبت کی فراوانی سے پہلے
مجھے دیوار و در پہچانتے ہیں
میں گھر والا تھا مہمانی سے پہلے
کھنڈر کے سارے دروازے تھے چھوٹے
مرے شوقِ حدی خوانی سے پہلے
علی صابر رضوی