محبوبِ وقت ہوں کبھی معتوبِ وقت ہوں
ہر گردشِ حیات کی میں بازگشت ہوں
اپنی ہی دھوپ چھاؤں میں رہتا ہوں دربدر
میں گلشنِ حیات کا ایسا درخت ہوں
آشفتگانِ دشتِ محبت کے نام پر
راہِ طلب میں آج بھی جگنو بدست ہوں
میری کسی بھی بات کا بالکل برا نہ مان
دل کا برا نہیں ہوں میں لہجے میں سخت ہوں
ناراض ہو کے مجھ سے تو پچھتائے گا بہت
میں تیرے مسئلوں کے لیے بندوبست ہوں
گردِ سفر ملی مجھے منزل نہیں ملی
اپنی مسافتوں کی سراپا شکست ہوں
بچے بڑے ہوئے تو بہت کچھ بدل گیا
لیکن میں اپنے گھر کا ابھی سرپرست ہوں
یہ ساری کائنات مری دسترس میں ہے
تو کیوں سمجھ رہا ہے کہ میں تنگ دست ہوں
ہر ظلم کے خلاف ترے ساتھ ہوں نثار
میں مصلحت پسند نہیں حق پرست ہوں
ڈاکٹر نثار احمد