یہ گداز رس بھری گولائیاں
ایک اردو افسانہ از سید محمد زاہد
یہ گداز رس بھری گولائیاں
سنگ تراشی اس کا خاندانی پیشہ تھا۔ وہ اس فن کو عبادت سمجھتے تھے۔ اس کا والد کہتا تھا ہرٹیڑھے میڑھے پتھرمیں ایک مورتی چھپی ہوتی ہے جسے فنکار ایک نیا جنم دیتا ہے۔ نسل در نسل وہ گندھارا تہذیب کے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ آفاق نے ہمیشہ نرم و نازک پتھر’ شیست ‘ کو تراش کر ہی مجسمے بنائے تھے۔گندھارا آرٹ کے زیادہ تر نمونے اسی پتھر سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ لیکن اس مورتی کو بنانے کے لئے چابک دست سنگ تراش نے سفید سنگ مرمر کو چنا تھا۔ انتہائی سخت پتھر جس کو تراشتے ہوئے اس کی انگلیاں زخمی ہو جاتی تھیں۔اس کے اوزار ٹوٹ جاتے تھے۔کئی دنوں سے وہ اس کام میں جتاہوا تھا۔ آفاق جلد از جلد اس کی تکمیل چاہتا تھا۔وہ اس بے جان پتھر کو تراش کر ایسا جاندار جسم تخلیق کرنا چاہتا تھا جس میں حسن و عشق کی تمام رعنائیاں مقید ہو ں۔ اس دیوی میں عشق کی گرم سانسیں پھونک کر اسے حیات دوام دینا چاہتاتھا۔ ساری ساری رات کام کرتے اسے تھکاوٹ نہیں ہوتی تھی ۔کئی راتوں کی محنت کے بعد وہ سر، گردن اور کندھے بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ انسانی شبیہ میں آنکھیں بنانا بہت مشکل کام ہے ۔ چھوٹا چھوٹا کام کئی دن لے جاتا ہے۔ اس نے ایسی خوبصورت آنکھیں بنائی تھیں کہ گمان ہوتا جل پری کی زمردیں نین ابھی حرکت میں آجائیں گے۔
آفاق کی بیوی ، روحی بت تراشی کو گناہ سمجھتی تھی۔ویسے بھی ملک کی تقسیم کے بعد سے یہ کام زوال پذیر تھا۔ گندھارا آرٹ کےصدیوں پرانے بتوں کی نقل بنانا خلاف قانون تھا۔ راتوں کو چھپ چھپ کر کام کرنا پڑتا تھا۔ اس کام میں محنت زیادہ اور مزدوری کم ملتی تھی۔ اگر چہ ان کے بنائے ہوئے یہ شاہکار بیرون ملک ہزاروں ڈالرز میں فروخت ہوتے لیکن کئی دنوں کی محنت کے بعد ان فنکاروں کو چند سو یا دو چار ہزار روپے ملتے تھے۔ اسی لئے زیادہ تر لوگ بت سازی چھوڑ کر برتن اورڈیکو ریشن پیس بنانا شروع ہو گئے تھے۔ کئی بار اس نے سوچا تھا کہ اس کام کو چھوڑ کر وہ بھی دوکان کرلے اور پتھر کی سلیں ، کھرل ، باٹ ، اوکھلیاں اور موسل بیچنا شروع کر دے۔
اس کی بیوی بیمارتھی۔ دن میں وہ اسے لے کر ہسپتالوں کے چکر لگاتارہتا اور رات کو جب روحی دوائیوں کے نشے میں دھت سو جاتی تو وہ اپنے کارخانے میں آ جاتا اور مورتی کو تراشنا شروع کر دیتا۔ بیماری میں انسان مذہب کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے اس لئے وہ اسے بار بار بت تراشی چھوڑنے کا کہتی۔ اب اس نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اس کے بعد وہ یہ کام چھوڑ دے گا۔وہ روحی کو بیماری میں ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔
آفاق کو برسات کا وہ دن ابھی بھی یاد تھا جب وہ ‘موہرا مرادو ‘ میں سٹوپا کے پاس کافی دیر بیٹھا رہا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی ۔ دن بھر بادل خوب برسے تھے۔ اب ڈوبتا سورج بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا۔ واپس آتے ہوئے جھرنے کے پاس پہنچاتو وہ سفید لباس میں زرنگار پانی کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی پہاڑ کی گود سے نکلنے والی اٹھلاتی بل کھاتی ندی ہی لگ رہی تھی۔ وہ کوئی پہاڑی نغمہ گنگنا رہی تھی۔ ہلکی ہلکی گنگھناہٹ جھرنے کے دھیمے آبی گیت میں ہی گھل مل گئی تھی۔ شام کی فضا یک دم مرتعش ہو گئی اور آفاق کے سینے میں ہیجان پیدا ہو گیا ۔ روحی کے چہرے کی لالی دیکھ کر لمحہ لمحہ خون ہوتے سورج نے اپنا منہ افق کی گود میں چھپا لیا۔
روحی اس کی زندگی میں پہلی اور آخری عورت تھی۔ شادی کے بعد اس کو دیکھ کر وہ سدھ بدھ کھو بیٹھا تھا۔ وہ عورت کو صرف چہرے سے ہی جانتاتھا۔ آج تک اس نے صرف مورتیوں کو ہی جوانی کی اٹھان بکھیرتے دیکھا تھا۔ اب اسے پتا چلا کہ چہرہ تو صرف ہلکا سا تعارف ہے ۔ اس پر روزانہ ہزاروں انکشافات ہوتے۔ حسن کے اس ایک ساگر میں اتنے عجائبات تھے جتنے سات سمندروں میں موتی۔ اس کے متلاطم جذبات کی لہریں پتھریلے گنبد نما جزیروں سے ٹکرا کر جھاگ بن کر لوٹ جاتیں۔ جب پہلی بار اس نے قبہ پستان کو شوخ و شنگ سینے سے ہٹایا تو اندھیرے کمرے میں دو فانوس روشن ہو گئے تھے۔سنگ تراش کے کھردرے ہاتھوں نے انہیں اپنی ہتھیلیوں سے مسلنے کی کوشش کی توان کٹھور نکیلی ابھاروں کی چبھن برداشت نہ کر سکے۔ ایک عرصہ گذر چکا تھا ۔ روحی اسکے دو بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔ آفاق نے ان مغرور اٹھانوں کو ڈھلکنے سے بچانے کےلئے بچوں کو دودھ پلانے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔
سنگ مرمر کی مورتی کو تراشتے ہوئے وہ ایسا ہی شاہکار تیار کرنا چاہتا تھا ۔ جب کبھی بھی اس نے فاسٹنگ بدھا کی نقل تیار کی تھی تواس کی شریانوں میں دوڑتا ہوا خون بھی دکھائی دینا شروع ہوجاتا تھا۔ اب اس سفید مورتی کے سینے کے ابھاروں میں بھی نیلگوں رگیں صاف نظر آتی تھیں۔اس پری زاد کےسر پستان انگشتر سلمان کے نگین سے سوا تھے۔
کام مکمل ہونے کے قریب تھا۔ روحی کی طبیعت بھی دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ ایک رات ا س کو سوتا دیکھ کر وہ اٹھنے لگا تو روحی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہنے لگی “جب سے میرا اپریشن ہوا ہے تم مجھ سے دور دور رہنا شروع ہو گئے ہو۔ اسی لئے میں آپریشن کے لئے تیا ر نہیں ہو رہی تھی۔ کیا میرے جسم کا وہ حصہ جو تمہیں بہت زیادہ پسند تھا ، وہ نہیں رہا تو میرے ساتھ تمہاری محبت بھی ختم ہو گئی ہے۔تم راتوں کو کہاں چلے جاتے ہو؟ میں نے تمہیں مرنے سےپہلے ہی کھو دیا۔ ”
آفاق بولا “کل تم میرے ساتھ چلنا ۔ تمہیں پتا چل جائے گا۔”
جب وہ بیگم کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا تھا تو اس نے چھاتی کا معائنہ کرنے کے بعد کہا تھا “اسے کاٹنا پڑے گا ۔” کئی مہینوں سے وہ چھاتی میں گلٹی محسوس کر رہی تھی ۔ روائتی شرم دونوں کو ڈاکٹر کے پاس جانے سے روک رہی تھی۔ درد شروع ہو گیا، بٹنی اندر دھنس گئی اور اس سے خون بھی جاری ہوگیا ، تو دیر ہو چکی تھی۔
اگلی رات وہ اسے اپنے کارخانے میں لےآیا۔ “ تمہارے تمام سوالوں اور خدشات کا جواب اس مورتی کی شکل میں مجسم تمہارے سامنے موجود ہے۔”
“یہ کیا! میں آپ کو بت سازی سے منع کرتی تھی ، آپ نے میرا ہی مجسمہ بنا دیا ۔”
“ہاں ! میری جہالت اور بےوقوفی نے تمہیں داغ دار کردیا تو میری محبت نے اس داغ کو مٹا کر تمہیں پھر مکمل کردیا۔ دیکھو ، یہ گداز چھاتیاں ، رس بھری گدرائی ہوئی یہ گولائیاں آج بھی اتنی ہی حسین ہیں۔ تمہاری رعنائیاں ، پوشیدہ اور ظاہر ، تمام اس میں مقید ہیں۔ دیکھ لو، تمہاری جوانی اورمیرا عشق دونوں اس سنگ مرمر کی مورتی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو گئےہیں۔ اگر چہ تم اجنتا کے کسی سنگتراش کا شاہکار یا ایلورا کی کوئی جیتی جاگتی مورتی نہیں ہو ، لیکن تم گندھارا تہذیب کی ایک دیوی ہو ، سنگ مر مر کے ملکوتی تقدس اور پاکیزگی میں ڈھلی ہوئی حسن و عشق کی دیوی، روحی دیوی۔روحی آؤ ! میری دیوی، آؤ! اب تم اس میں اپنی گرم گرم سانسیں پھونک کر اسے حیات دوام بخش دو۔”
(“اکتوبر۔ چھاتی کے سرطان سے آگاہی کا مہینہ ” ۔ اس سرطان میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ شرم ہے۔ ایک اور وجہ بچوں کو دودھ نہ پلانا ہے۔)
سید محمد زاہد