ترے سوا کسی سے رابطہ نہیں سائیں
بچھڑ نہ جائے تُو یہ حوصلہ نہیں سائیں
ہمارے خون میں شامل یہ دشت گردی ہے
ہمارے واسطے یہ واقعہ نہیں سائیں
جو اصل روپ دکھاتا ہو روشنی والا
کسی کے پاس بھی وہ آئنہ نہیں سائیں
سحر کے بعد چراغوں کو کون پوچھے گا
بجھے ہووں سے تمہیں واسطہ نہیں سائیں
میں کیا کروں کہ مری زندگی بدل جائے
میں کیا کروں کہ کوئی ذائقہ نہیں سائیں
امید ٹوٹ گئی ہے وصال کی جب سے
کسی خیال سے پھر سلسلہ نہیں سائیں
میں تیرگی سے گزارا گیا مسافر ہوں
دیے کی لو تو مرا مسئلہ نہیں سائیں