ہم کو جہانِ شوق کا منظر نہیں ملا
رستے کی تیز دھوپ ملی گھر نہیں ملا
تُجھ میں جو بات ہے وہ کِسی اور میں کہاں
تجھ سا کوئی بھی شخص کہیں پر نہیں ملا
خود ہی چنا تھا میں نے محبت کا راستہ
کوئی بھی درد خود مجھے آ کر نہیں ملا
ڈر تھا اُسے وبا کا ہی پاس ِوفا نہ تھا
آیا تو مُجھ کو دل سے لگا کر نہیں ملا
اب کے برس میں گاؤں سے لوٹا بخیریت
رستے میں اُس کی یاد کا لشکر نہیں ملا
موجود تو تھے ظاہری اسباب بھی تمام
پھر سوچتا ہوں وہ مجھے کیونکر نہیں ملا
آئے اور آ کے دیکھ لے دامن کی دھجیاں
جس کو کہیں دیار ِ ستمگر نہیں ملاِ
عدنان اثر