تمہارے ہجر کا انجام خوب صورت ہے
بہت اداس مگر شام خوب صورت ہے
پھر اس کے بعد یہ رستہ کدھر کو جاتا ہے
یہ زندگی تو کوئی گام خوب صورت ہے
تو جس طرح سے حسیں ہے زمانے بھر سے الگ
اسی طرح سے ترا نام خوب صورت ہے
نہیں ضروری کہ ہر بات کی وضاحت ہو
کہیں کہیں پہ یہ ابہام خوب صورت ہے
میں اس لیے نہیں دیتا صفائی اپنی وفاؔ
مرے حریف کا الزام خوب صورت ہے
مقصود وفا