آپ کا سلاماردو تحاریرتحقیق و تنقیدمقالات و مضامین

شعر وشاعری کیا ہے

مقالہ از محمد حسین بہشتی

شعر وشاعری کیا ہے

عام طور پر شعرو شاعری کو ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ عوام تو شعرکی ہر شکل وصورت کو قبول کرتی ہے۔ لیکن اہل فن و دانش کے ہاں شاعری کی ایک خاص تعریف و شکل ہوتی ہے۔ ایک بہترین شاعر ردیف اور قافیہ سے لیکر الفاظ کا چناو اور وزن تک دقیق حساب و کتاب رکھتا ہے۔ ماہر شعرا ء کے ہاں اوزان کے مختلف قالب مثلا فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن ، فاعلات۔۔۔ ہوتے ہیں۔یوں ادیب کے اشعار اوزان کے اندرہوتے ہیں۔ ان کے اشعار فن و کمال کے تمام شرائط پر پورےاترتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ یہ بھی مشاہدے میں آیاہے کہ شاعر بہت بڑا عالم بھی ہے اور ادیب بھی، وہ شاعری کے تمام فنون سے آگاہ بھی اور انہیں معنی کو شعر کے مختلف قالب میں ڈالنے کا گر بھی رکھتا ہے لیکن ان تمام خوبیوں پر مشتمل ہونے کے باوجود اس کی شاعری جذابیت کے عنصر سے خالی ہوتی ہے۔ بلکہ شاعری کے معاملہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک عام سادہ بلکہ ان پڑھ شخص، ایک عالم، دانشمند، ڈاکٹر اور ادیب سے زیادہ اچھا شعر پڑھتا ہے ، اس کا شعر پرمعنی بھی ہوتا ہےاور لوگوں کے لئے جذابیت بھی رکھتا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ شاعربننے کے لئے کوئی بڑا پڑھالکھا آدمی، علامہ، ڈاکٹر یا ادیب عصرہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاعری کیا چیز ہے ، جسے ڈھیرسارے معلومات، فلسفہ کی گہرائی اور علوم وفنون میں یدطولی رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ شاعری نام ہے؛
درد کی حد سے گزرنے کا
عشق کی حد سے گزرنے کا
خوشی وشادی کے حد سے گزرنے کا
مصیبتوں اور مشکلات کے حد سے گزرنے کا ؛ یعنی انسان کی زندگی میں طاری ہونے والے مختلف حالات میں ا ن کے اوج تک پہنچنے پر شعر تخلیق ہوتا ہے۔ اس مقام پر جو شاعری زبان پر جاری ہوتی ہے لوگوں کے درمیان مقبول ہوتی ہے

کیونکہ علامہ اقبال کے بقول :
دل سے جو بات نکلتی ہے اثررکھتی ہے
پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
یقینی بات ہے شعر و شاعری سے مربوط ہزاروں تعریف ، سلیقہ، اسلوب اور طرز بیاں وطرز فکرہو سکتے ہیں وہ سب اپنی جگہ قابل احترام ہے۔ مگر جو چیز حقیقت کے نزدیک ہو اور اسی کو منعکس کررہی ہو ، اس کا بناوٹی اسلوبوں سے کوئی مقایسہ نہیں ہوسکتا ۔ مذکورہ چند سطر لکھنے کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ دیکھا دیکھی شاعری کرنے لگے ہیں۔ یہ لوگ اپنا وقت برباد کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے ۔ ان کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو غواص تو نہیں ہےپرسمندر کی گہرائیوں تک پہنچنا چاہتا ہے۔اس طرح کے لوگوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا بلکہ وہ سمندر کی گہری موجوں کی نذر ہوجائیں گے۔
معاشرے میں ایک طبقہ بڑا حریص اور لایحی ہے۔ یہی طبقہ دوسروں کو ترقی ہوتے ہوئے دیکھ کر ان کی نقل اتارنا شروع کرتا ہے جبکہ وہ ترقی کے بجائے اپنے پاس جو جمع پونجی ہوتی ہے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔
شاعری کے دنیا میں بہت ساروں کی یہی حالت زارنہایت ہی خراب ہے اور بہت سارے جعلی شاعرمذکورہ عاقبت کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر کسی بہت بڑے نقصان کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کرتے تو کم از کم اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضایع کررہے ہوتے ہیں اور ایک باہدف انسان کے لئے اس سے بڑا نقصان اور کیا ہوسکتاہے؟ میری گزارش یہ ہے کہ ہرشخص اپنی خداد صلاحیتیوں کو پہچان کر اپنے لئے میدان چن لے اور اسی میں اپنے آپ کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ خود بھی کسی منزل تک پہنچے اور دوسروں کے وقت کو بھی اپنی لولی لنگڑی شاعری سنانے میں ضائع مت کریں!

محمد حسین بہشتی

محمد حسین بہشتی

نام : محمد حسین بہشتی پیدائش : 1969م سندوس سکردو ابتدائی تعلیم : سندوس سکردو اعلی تعلیم : گر یجو یشن کراچی یونیورسٹی شغل : تحقیق (ریسرچ سیکا لر )( اب تک 200 سو مقالہ اور 25 کتابیں)
Loading...
سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button