- Advertisement -

کمار سانو

ایک اردو افسانہ از انور جمال انور

کمار سانو

اس کے دل کی حقیقی ترجمانی کوئی کر سکتا تھا تو وہ یہی فنکار تھا ۔ اس نے نیا ریکارڈ پلیئر خرید لیا جس کا ساؤنڈ اتنا زیادہ تھا کہ چوتھے محلے کی صائمہ تک بھی پہنچ جاتا ، مگر فی الحال اسے اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ ایک منزلہ عمارت میں اس کا کمرا چھت پر واقع تھا جہاں سے وہ جب بھی نیچے جھانکتا ، نگاہوں کی مراد بر آتی ۔ اس کی بھابھی جسے وہ ،بھرجائی کہتا تھا بڑے سے آنگن میں جھاڑو لگاتی یا برتن دھوتی یا بکریوں کو چارہ دیتی نظر آجاتی اور اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ۔ وہ ریکارڈ پلیئر آن کرتا تو اس کا ترجمان کمارسانو اپنی مدھر آواز میں گانے لگتا ؛

نظر کے سامنے جگر کے پاس
کوئی رہتا ہے ، وہ ہو تم تم تم

اور جب جواب میں الکا یا سادھنا گاتی تو اسے لگتا یہ کوئی اور نہیں بھرجائی کے اپنے بول ہیں اور وہ بھی اسے اتنا ہی چاہتی ہے ۔ حالانکہ یہ بات ابھی ثابت نہیں ہوئی تھی کہ وہ سچ میں اسے کوئی اہمیت دیتی ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور تھا کہ کمار سانو کی پکار پر اس کا ڈوپٹہ ڈھلک ڈھلک جاتا اور برتن دھوتے دھوتے یا جھاڑو لگاتے لگاتے اس کے سینے کے ابھار کھل کر سامنے آ جاتے ۔ وہ چھت کی بلندی سے جب نیچے دیکھتا تو اکثر کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹ جاتا اور اف اف کی آوازیں نکالنے لگتا ،۔

یہ بھرجائی تو روز بہ روز نکھرتی جا رہی ہے ، وہ سوچتا ۔ حالانکہ وہ پکے رنگ کی تھی ۔

جب بھائی اس کی ڈولی لے کر آیا تھا تب بھی وہ اسے کوئی خاص پسند نہیں آئی تھی اور شادی سے پہلے تک تو وہ اسے بالکل ہی بیکار لگتی تھی ۔ پتہ نہیں ایک سال کے اندر اندر کیا ہوا تھا کہ اس نے خاص اداؤں کے ساتھ ساتھ اپنی جلد کو بھی تبدیل کر لیا تھا ۔

سوال “ کیا سانپ کی طرح کچھ خواتین بھی اپنی کینچلی تبدیل کر سکتی ہیں ؟ جواب ” پتہ نہیں ۔

بھرجائی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر جب باہر گلی میں محلے کی عورتوں کے بیچ بیٹھتی تو کہتی

” بہن ،، رب کسے نوں حسن نہ دیوے ، سارے مرد پچھے پے جاندے نے ۔ ( بہن خدا کسی کو حسن نہ دے ورنہ سارے مرد پیچھے لگ جاتے ہیں )

کوئی حیران ہو کر پوچھتی

” ہائے بہنا کون تیرے پیچھے پڑا ہے تو بھرجائی فوراً اللہ توبہ کرتی

”ہائے ہائے میرے پچھے کون آوے گا میں اس دا منہ نہ توڑ دیاں ۔

یہ نائنٹی سے ذرا پہلے کا دور تھا چنانچہ فراغت ہی فراغت تھی ۔ دن کاٹے نہیں کٹتا تھا ، صبح ہوتی تو دوپہر نہ ہوتی ،کسی طرح دوپہر ہوجاتی تو شام نہ آکر دیتی ۔ شام کو گلی میں ایک طرف عورتوں تو دوسری طرف محلے کے بڑے بوڑھوں کی بیٹھک لگتی ۔ ایک ایک چارپائی پر چار چار بزرگ بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتے ، کھانستے اور نئی نسل کی بے راہ روی کا رونا روتے ۔ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ زمانہ کروٹ بدل رہا ہے ۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کا موضوع سخن کچھ اور ہونے والا ہے ۔ کلر ٹی وی مارکیٹوں میں آ چکا تھا ۔ اب وی سی آر کی وبا پھیلنے والی تھی ۔ عورت کی شرم و حیا پر باتیں کرنے والے یہی بزرگ کل کو چھپتے چھپاتے جب وی سی آر کرائے پر لائیں گے تو ان کی آنکھیں حلقوں سے باہر آجائیں گی اور اگلے دن حقہ گڑگڑاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہیں گے

” اللہ معاف کرے ، اے انگریز تے بڑے ہی بے غیرت نے ‘‘۔

پھر وہ دیر تک انگریز کی گندی حرکتوں کا ذکر کیا کریں گے جو انہیں نیلی فلموں میں دیکھنے کو ملیں گی ۔اور جب وہ نظر اٹھا کر گلی کے دوسرے سرے پر خوش گپیاں کرتی مٹیاروں کو دیکھیں گے تو سوچیں گے یہ تو بڑی ہی پاک دامن بیبیاں ہیں ، انہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں ۔

بھرجائی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا ایک عاشق ہے اور وہ اس عاشق کو اتنا تڑپانے والی ہے، اتنا تڑپانے والی ہے کہ وہ اس کے آگے ناک رگڑ دے گا اور دونوں ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیاں مانگے گا ۔ کس بات پر معافیاں مانگے گا ، یہ بھی اسے معلوم تھا ۔ اسے تڑپانے کے لیے ہی وہ ہر وقت ہونٹوں پر سرخی لگائے رکھتی اور بڑے بڑے گلے والی قمیضیں پہنتی ۔اس کے ہونٹوں پر سرخی جچتی بھی بہت تھی ۔ پیارے پیارے مکھڑے پر جیسے کسی نے گلاب کی دو سرخ پتیاں سجا دی ہوں ۔ کمار سانو کا نیا آنے والا گیت بھی ان دو پتیوں کے بارے ہی تھا ۔یعنی

چوم لوں ہونٹ ترے دل کی یہی خواہش ہے
بات یہ میری نہیں پیار کی فرمائش ہے

جب اس گانے کی کیسٹ وہ خرید کر لایا تو اس نے تو اسے بجا بجا کر حد ہی کر دی اور بھرجائی کے سن سن کر کان پک گئے اور تنگ آ کر وہ چھت کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگی

” لے بھائی تو آکر چوم لے میرے ہونٹ اور جان چھوڑ‘‘ ۔

اس کے بعد مارکیٹ میں ایک اور کیسٹ آگئی ۔ کمارسانو چھا گیا تھا ، نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا ۔ اس نے ان کہے جذبات کو الفاظ دے دیے تھے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کچھ ایکدوسرے کو کہنا چاہتے تھے وہ کمارسانو کی زبان سے کہہ ڈالتے ۔ اسی گلوکار کی وجہ سے بھرجائی بھی مجبور ہو چکی تھی اور ایک دن جب وہ چھت والا اوپر سے اتر کر نیچے آیا اور زبردستی اس کے ہونٹ چوم کر بھاگ گیا تو وہ کچھ بھی نہ کر پائی ، دیر تک ساکت ہو کر ایک مخملی کیفیت میں مبتلا رہی ۔ نگاہوں سے محبت کرنے والے نے آج اسے آ کر چھو لیا تھا ۔ ” اف اللہ “ کیفیت ختم ہوتے ہی اسے خوف نے آ لیا ، یہ میں کیا ظلم کرا بیٹھی ہوں اپنے ساتھ ۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہونے لگی ۔ منڈیر پر بیٹھا کالا کوا زور زور سے کائیں کائیں کرنے لگا ۔ وہ سہم گئی کہ کہیں یہ کوا ہی نہ سب کو بتا دے ۔ اس نے ہش ، ہش ، کر کے کوے کو اڑانے کی کوشش کی مگر وہ ڈٹا رہا اور پورے جسم کا زور لگا کر کائیں کائیں کرتا رہا جیسے اسے ڈانٹ رہا ہو ۔ وہ دوڑ کر اپنے کمرے میں گئی اور دروازہ بند کر کے بستر پر گر گئی ۔ رات کو وہ نیند میں تھی جب اس کے شوہر نے اسے چوما ، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ بدن اس خوف سے لرز گیا تھا کہ کہیں یہ دیور نہ ہو ۔ بچت ہوگئی کہ یہ وہ نہیں تھا بلکہ وہ تھا جس کا سچ مچ حق بنتا تھا ۔ منہ ایک اور چومنے والے دو ۔

سوال ” کیا یہ سلسلہ چلنا چاہئیے ؟
جواب ” نہیں ۔

وہ یہ سوچ کر دوبارہ سو گئی کہ صبح کسی ایک کو وہ ضرور سختی سے منع کر دے گی ۔ صبح دونوں بھائی اٹھ کر کام پر چلے گئے ۔ اسے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ جبکہ مردود کوا صبح ہی صبح آن دھمکا ، کائیں کائیں کائیں ۔ وہ گھر سے باہر نکل گئی ۔ کچر کچر باتیں کرنے والی محلے والیوں میں جا بیٹھی ۔ تمام عورتیں جمیلہ کو اپنے جھرمٹ میں لیے اسے دلاسے تسلیاں دے رہی تھیں ۔ جبکہ جمیلہ محض سر کو جھکائے ہوئے ناک کو سڑ سڑ کر رہی تھی ۔ آج اس کے شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا تھا اور طلاق کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی ۔قصور بیچاری کا صرف اتنا تھا کہ وہ سامنے والوں کے منڈے کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی پکڑی گئی تھی ۔

اے مرد ذات تے بہت ہی شکی ہوندی اے ۔ عورتیں مرد ذات کی اس عادت پر بہت ہی نالاں نظر آئیں اور دیر تک لعنت ملامت کرتی رہیں۔

بھرجائی کا اپنا بھی ماتھا ٹھنکا تھا ۔ جمیلہ کی یہ حالت دیکھ کر اسے اپنی بھی فکر پڑ گئی تھی ۔ اس نے سبق سیکھا کہ کسی غیر کے آگے کبھی بھی ہنس ہنس کر باتیں نہیں کرنی ۔ ۔ اس نے سوچا ، غیر تو غیر اب وہ اپنے دیور کے سامنے بھی کبھی نہیں ہنسے گی ۔ بھرجائی وہاں بیٹھی دیر تک خیالوں میں کھوئی رہی ۔ بظاہر وہ محلے والیوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی مگر اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں ۔ گلی میں بیٹھا ایک کتا زور سے بھونکا تو اسے ہوش آیا ۔ کتا ایک بلی کے پیچھے بھاگا تھا ۔ بلی اس طرف دوڑ گئی جس طرف بڑے بوڑھے اپنی بیٹھک جمائے ہوئے تھے ۔ وہ اٹھی اور اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی ۔

شام کو جب دیور گھر آیا اور آتے ہی اس نے کمار سانو کو بجانا شروع کیا تو وہ غصے سے پاؤں پٹختی چھت پر جا پہنچی ۔

یہ دعا ہے میری رب سے تجھے
عاشقوں میں سب سے میری عاشقی پسند آئے ۔
میری عاشقی پسند آئے

کمار سانو کہہ رہاتھا مگر بھرجائی نے جاتے ہی ڈیک کا تار کھینچ دیا ’’۔ ۔ ۔ وے تینوں شرم نئیں آندی ۔ ۔ ۔‘‘

وہ پنجابی زبان میں صلواتیں سنانے لگی جس کا متن یہ تھا کہ یہ تم کیا بجاتے رہتے ہو فضول میں ۔ اور یہ کیا حرکت کی تھی کل تم نے ۔ اگر تمہارے بھائی کو پتہ لگ گیا تو کیا ہوگا کبھی سوچا ہے ۔ اور جب میرا رشتہ لے کر میرے گھر والے آئے تھے تو اس وقت تم نے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت تمہیں میں اچھی نہیں لگتی تھی ۔ اپنے آپ کو بڑا ہیرو سمجھتے تھے تم ۔ اب تمہارے بھائی سے میرا بیاہ ہوگیا ہے تو مر رہے ہو ۔ اب کیا فائدہ ۔

پتہ نہیں بھرجائی ڈانٹ رہی تھی یا اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی ۔ یہ تو سچ ہی تھا کہ اس کا رشتہ آیا تھا مگر انکار کے بعد وہی رشتہ دوسرے بھائی کے ساتھ طے ہو گیا تھا ۔ وہ اس کی طرف سے ٹھکرا دی گئی تھی ۔ اور یہ ٹھکرایا جانا وہ کبھی فراموش نہیں کر پائی تھی ۔ اسے انتقام لینا تھا ایک ایسا انتقام جو مسلسل جاری رہے ۔ اس کے لبوں کی لالی اس کی نکھری ہوئی جلد اور بے ڈوپٹہ سینے کے دونوں ادھ کھلے ابھار ہی دراصل اس کے انوکھے انتقام کی ایک شکل تھی ۔ وہ پنجابی میں خوب ڈانٹ پلانے کے بعد نیچے اپنے کمرے میں آگئی ۔ اور پتہ نہیں کس وجہ سے رونے لگی ۔

سوال ” کیا عورت کبھی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟
جواب ” نہیں “

کمار سانو کا منہ بند ہو چکا تھا ۔ اور دیور جی نے نہ رات کا کھانا کھایا نہ صبح کا ۔ منہ اندھیرے ہی کہیں نکل گیا ۔ بھرجائی کو فکر ستانے لگی ۔ سوچا کاش اسے اس طرح ذلیل نہ کرتی ۔ جب وہ دوپہر کو گھر آیا تو پوچھا کام پر کیوں نہیں گئے اور ناشتہ بھی نہیں کیا ؟

وہ کچھ نہ بولا ، چپ چاپ سیڑھیاں چڑھ گیا ۔ اس کی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں ۔ بھرجائی کے دل پر کوڑے پڑ گئے ۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ رات بھر روتا رہا ہے ۔ وہ بے چین ہوگئی ، پریشان ہو گئی ، چکی کے دو پاٹوں میں آ گئی ۔ رشتوں کے تقاضے اپنی جگہ مگر اسے یہ بھی کب منظور تھا کہ کوئی اس کی وجہ سے کھانا پینا چھوڑ دے اور رو رو کر آنکھیں سجا لے ۔ اس نے کھانا گرم کر کے اسے کھانے کو دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا ، گردن لٹکائے ہونٹ کاٹتا رہا۔

’چل کھانا کھا لے ۔ ۔ چھوڑ پرے ۔۔ ۔ ‘‘، وہ نرمی سے کہنے لگی۔ وہ نہ مانا ۔’’اچھا چل کھانا تو کھا “ ، وہ زور دے کر کہنے لگی ۔

’’میں نہیں کھاؤں گا‘‘ ۔ آخرکار ایک پتلی سی آواز برآمد ہوئی ۔

کیوں نہیں کھائے گا ؟ مرنا ہے تجھے ؟

وہ منہ گھما کر دوسری طرف دیکھنے لگا ۔

’’اچھا ادھر تو دیکھ ‘‘۔ وہ لاڈ سے کہنے لگی ۔

’’مجھے نہیں دیکھنا ‘‘۔

’’دیکھ تو سہی ‘‘۔ وہ یوں دیکھنے کو کہہ رہی تھی جیسے ابھی آنکھوں ہی آنکھوں سے سارے معاملات درست کرلے گی ۔

’’ اچھا غلطی بھی تیری اور ناراض بھی تو ہو رہا ہے ۔ چل میں تجھ سے معافی مانگ لیتی ہوں ‘‘۔ بھرجائی نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ دیور جی کے ضبط کیے ہوئے آنسو چھلکنے لگے ۔ وہ بے اختیار رو پڑا ۔

بھرجائی کے دل پر ایک اور کوڑے کی ضرب لگی اور وہ ایکدم سے بھول گئی کہ اس کا شوہر کون ہے اور یہ اس کے سامنے کون ہے ۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا ۔ منڈیر پر چغل خور کوا کائیں کائیں ہی کرتا رہ گیا ۔ اس کی ایک نہ چلی اور دور کھیتوں میں کسان نےنئے بیج بو دیئے اور باغوں میں اتنے پھول کھلے کہ مالی مالا مال ہو گیا ۔ گلی کا کتا بلی کے پیچھے دوڑتا تو وہ بھاگ کر بابوں کی چارپائی کے نیچے چلی جاتی اور دور سے اسے منہ چڑاتی ۔ محلے والیاں جمیلہ کا دکھ بانٹتیں اور بھرجائی کہیں اور ہی خیالوں میں کھوئی رہتی ۔ یا کبھی کبھی کہتی

” نی بھینا مرد جدوں پیار وچ انھا ہو جائے تے فیر کج نئیں ہو سکدا ۔ ( اے بہن مرد جب پیار میں اندھا ہو جاٸے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا )

کمار سانو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اب وہ روز شام کو اپنے سر بکھیرتا اور الکا منہ پھیرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دیتی ۔ دونوں مل کر گنگناتے ، پیار کے گیت گاتے ۔ ایکدوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے ۔ پھر وہی ہاتھ بانہوں میں تبدیل ہو کر ایک دوسرے کو کھینچ لیتے ۔ پھر دو پیاسے ہونٹ آگے بڑھتے اور ایک دوسرے کو اتنا چومتے اتنا چومتے کہ چہرہ لال کر دیتے یہاں تک کہ کالا کوا چیخ چیخ کر اپنا گلا سکھا لیتا اور بھرجائی ہنس کر کہتی

” تو جل جل کے اور کالا ہو جا کوے ۔ خوشی کے دن تھوڑے ۔ ۔ ۔ ‘‘

یہ کائیں کائیں ایک دن ابا جی کے کانوں تک پہنچ گئی ۔ انہوں نے بہو کو بلایا ۔ حکم دیا کہ فوراً اپنے دیور کے لیے کڑی تلاش کر ۔ کب تک وہ کنوارا رہے گا ۔ اس کا بھی بیاہ کر دیتے ہیں تاکہ میں فارغ ہو جاؤں ۔ ابا جی نے دو چار گھروں تک بھی رہنمائی کی کہ وہاں جا کے پتہ کر اور رشتے کی بات چلا بھرجائی جانتی تھی کہ یہ دن ایک دن آنے والا ہے ۔ مگر اتنی جلدی کیوں ۔ ۔ ۔ دو چار سال اور نکل جاتے ۔ اسے اتنا دیوانہ بنا دیتی کہ پھر وہ شادی کے قابل ہی نہ رہتا ۔ملنگ بن جاتا یا کسی مزار کا بابا یا مجنوں بن کر جنگل جنگل گھومتا ۔ جس نے اسے بوجہ غرور ٹھکرایا تھا اس کی ایسی سزا تو بنتی تھی ۔ پہلا ہی رشتہ اتنا اچھا تھا کہ اس نے سر توڑ کوشش کر کے منع کروا دیا ۔ لڑکی حد سے زیادہ خوبصورت تھی ۔ اتنی خوبصورت لڑکی کو وہ اگر دیورانی بنا کر لے آتی تو اس کی اپنی کیا ویلیو رہ جاتی ۔ اسے تو ایسی لڑکی کی تلاش تھی جو اس سے کمتر ہو ہر معاملے میں ۔ اباجی نے رشتہ ڈھونڈنے کا کام اسے سونپا ہوا تھا چنانچہ وہ اپنے مطلب کی دیورانی تلاش کرنے میں ضرورت سے زیادہ ہی کامیاب ہو گئی ۔ یہ ایک بے کشش اور بڑی عمر کی کوئی عورت ٹائپ کنواری تھی ۔

کمار سانو کا چہیتا گھوڑی چڑھ گیا اور اپنی خود کی دلہن لے آیا ۔ بھرجائی بیاہ والے دن رونے دھونے کی بجائے مطمئن اور مسرور تھی ۔ یقین رکھتی تھی کہ سہاگ رات کے بعد جو سورج طلوع ہوگا ۔ وہ سب کچھ واپس بحال کر دے گا ۔ پھر وہی کمار سانو کی آواز ہو گی اور وہی اس کا عاشق اس کے لیے جان قربان کرنے کو حاضر ہو جائے گا ۔ مگر یہ کیا ۔ ۔ ۔ ایکدن گزرا ۔دوسرا دن گزرا ۔ ۔ تیسرا دن بھی چلا گیا مگر عاشق تو ایک منٹ کے لیے بھی اپنا کمرا چھوڑنے کو تیار نہیں تھا ۔ اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ نصیب دشمناں کہیں طبیعت تو خراب نہیں ۔ مگر پتہ چلا کہ بندہ ہشاش بشاش ہے ۔اسے اپنا کمرا بے حد پسند آگیا ہے ۔ کون بھرجائی ،کس کی بھرجائی ۔،کیسی بھرجائی ؟جب کعبے کا رخ ہی تبدیل ہو گیا ، تو سجدوں کا رخ بھی کیوں نہ بدلے ۔

وہ سب کچھ بھول چکا تھا ۔ یہاں تک کہ اس نے مڑ کر کمار سانو کی بھی خبر نہ لی ۔ الکا حیران تھی کہ کوئی یوں بھی بدل سکتا ہے کیا آن کی آن میں؟

سوال ” کیا کوئی یوں بھی بدل سکتا ہے ؟
جواب ” ہاں “

کالا کوا اب کائیں کائیں کی بجائے زور زور سے ہنستا ۔اور بھرجائی کا جی بھر کے مذاق اڑاتا ۔ ہتک محسوس کر کے وہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی ۔ مہینوں انتظار کے باوجود عاشق اپنے پرانے موڈ میں واپس نہ آیا ۔ اس کے ہونٹوں کی لپ اسٹک سوکھ سوکھ کر مٹی ہو گئی ۔ بڑے گلے کی قمیضیں سکڑ کے چھوٹی ہو گئیں اور سینے کے ابھار دب کر کہیں سینے میں ہی گم ہو گئے ۔۔ ایک دن گلی میں ریڑھی والا آیا اور پانچ روپے کلو کے حساب سے ساری کیسٹیں خرید کر لے گیا ۔ کچر کچر باتیں گھماتی محلے والیاں اب بھرجائی کے معاملے کو لے بیٹھی تھیں ،۔ نجانے انہیں کس نے خبر دے ڈالی تھی کہ وہ اپنے دیور پر مرتی ہے ۔ عورتیں دبی زبان میں اسے دلاسے دیتیں مگر وہ اپنے ہی خیالات میں کھوئی رہتی یا کبھی کبھی کہتی ؛
نی بھینا مرد صرف جسم دا بھکا ہوندا ای ۔  اے بہن مرد صرف جسم کا بھوکا ہوتا ہے ۔

انور جمال انور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
An Urdu Afsaana By Anwar Jamal Anwar