شاعری کا ابتدائی سبق
شمس الرحمن فاروقی کا ایک مضمون
پہلا حصہ
(۱) موزوں، ناموزوں سے بہتر ہے۔
(۱) (الف) چونکہ نثری نظم میں موزونیت ہوتی ہے، اس لیے نثری نظم، نثر سے بہتر ہے۔
(۲) انشا، خبر سے بہتر ہے۔
(۳) کنایہ، تشریح سے بہتر ہے۔
(۴) ابہام، توضیح سے بہتر ہے۔
(۵) اجمال، تفصیل سے بہتر ہے۔
(۶) استعارہ، تشبیہ سے بہتر ہے۔
(۷) (الف) لیکن علامت چونکہ خال خال ہی ہاتھ لگتی ہے، اس لیے استعارے کی تلاش بہتر ہے۔
(۸) غیر متوقع لفظ، متوقع لفظ سے بہتر ہے۔
(۹) تشبیہ، مجرد اور سادہ بیان سے بہتر ہے۔
(۱۰) پیکر، تشبیہ سے بہتر ہے۔
(۱۱) وہ تشبیہ، جس میں پیکر بھی ہو، معمولی تشبیہ اور معمولی پیکر سے بہتر ہے۔
(۱۲) وہ استعارہ جس میں پیکر بھی ہو معمولی استعارے سے اور معمولی پیکر سے بہتر ہے۔
(۱۲) (الف) لہٰذا ثابت ہواکہ پیکر والا لفظ، باقی الفاظ سے بہتر ہے، کیونکہ وہ دوسرے الفاظ کی قیمت بڑھاتا ہے۔
دوسرا حصہ
(۱) رعایت معنوی، رعایت لفظی سے کم نہیں۔
(۲) رعایت لفظی، رعایت معنوی کا بھی اثر رکھتی ہے۔
(۳) رعایت لفظی، بے رعایت بیان سے بہتر ہے۔
(۴) سب سے بڑی رعایت یہ ہے کہ تمام الفاظ، یا اکثر الفاظ، ایک دوسرے سے مناسبت رکھتے ہوں۔
(۵) کوئی بھی رعایت ہو، شعر کی تزئین ضرور کرتی ہے۔
(۶) تزئین بری چیز نہیں، کیونکہ تزئین کا تاثر شعر کے معنی میں شامل ہے۔
(۷) لیکن استعارہ، تشبیہ، پیکر، علامت، یہ محض تزئین نہیں ہوتے، بلکہ شعر کا داخلی جوہر ہیں۔
(۸) یہ کہنا غلط ہے کہ رعایت وہ اچھی چیز ہے جو نظر نہ آئے۔ جو چیز نظر نہ آئے وہ اچھی کیسے معلوم ہوگی؟
(۹) اگر استعارہ، تشبیہ، پیکر، علامت شعر کا جوہر ہیں تو رعایت ہماری زبان کا جوہر ہے۔
(۱۰) اظہار میں زور قائم ہو تو رعایت سے مفر نہیں۔ معمولی استعارے کو برتنے کی صلاحیت، معمولی رعایت کو برتنے کی صلاحیت کے مقابلے میں زیادہ عام ہے، اس وجہ سے کہ تمام زبان میں استعارہ پوشیدہ رہتا ہے۔ اس کے برخلاف، رعایت زبان کے ماحول میں ہوتی ہے اور اسے دریافت کرنے کے لیے ماحول سے موافقت ضروری ہے۔ ہم میں سے اکثر کو یہ موافقت نصیب نہیں۔
(۱۱) دومصرعوں کے شعر کاحسن اس بات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ دونوں مصرعوں میں ربط کتنا اور کیسا ہے؟
( ۱۲) اس ربط کو قائم کرنے میں رعایت بہت کام آتی ہے۔
تیسرا حصہ
(۱) مبہم شعر، مشکل شعر سے بہتر ہے۔
(۲) مشکل شعر، آسان شعرسے بہتر ہو سکتا ہے۔
(۳) شعر کا آسان یا سریع الفہم ہونا اس کی اصلی خوبی نہیں۔
(۴) مشکل سے مشکل شعر کے معنی بہرحال محدود ہوتے ہیں۔
(۵) مبہم شعر کے معنی بہر حال نسبتاً لامحدود ہوتے ہیں۔
(۶) شعر میں معنی آفرینی سے مراد یہ ہے کہ کلام ایسا بنایا جائے جس میں ایک سے زیادہ معنی نکل سکیں۔
(۷) چونکہ قافیہ بھی معنی میں معاون ہوتا ہے، اس لیے قافیہ پہلے سے سوچ کر شعر کہنا کوئی گناہ نہیں۔
(۸) شعر میں کوئی لفظ، بلکہ کوئی حرف، بے کار نہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا اگر قافیہ یا ردیف یا دونوں پوری طرح کارگر نہیں ہیں تو شعر کے معنی کو سخت صدمہ پہنچنا لازمی ہے۔
(۹) شعر میں کثیر معنی صاف نظر آئیں، یا کثیر معنی کا احتمال ہو، دونوں خوب ہیں۔
(۱۰) سہل ممتنع کو غیر ضروری اہمیت نہ دینا چاہیے۔
(۱۱) شعر میں آورد ہے کہ آمد، اس کا فیصلہ اس بات سے نہیں ہو سکتا کہ شعر بے ساختہ کہا گیا یا غو وفکر کے بعد۔ آورد اور آمد، شعر کی کیفیات ہیں، تخلیق شعر کی نہیں۔
(۱۲) بہت سے اچھے شعر بے معنی ہو سکتے ہیں، لیکن بے معنی اور مہمل ایک ہی چیز نہیں۔ اچھا شعر اگر بے معنی ہے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ مہمل ہے۔
چوتھا حصہ
(۱) مقفیٰ نظم، بے قافیہ نظم سے بہتر نہیں ہوتی۔
(۲) بےقافیہ نظم، مقفیٰ نظم سے بہتر نہیں ہوتی۔
(۳) قافیہ خوش آہنگی کا ایک طریقہ ہے۔
(۴) ردیف، قافیے کو خوش آہنگ بناتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردف نظم، غیر مردف نظم سے بہتر ہے۔
(۵) لیکن ردیف میں یکسانیت کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے قافیے کی تازگی ضروری ہے، تاکہ ردیف کی یکسانیت کا احساس کم ہو جائے۔
(۶) نیا قافیہ، پرانے قافیے سے بہتر ہے۔
(۷) لیکن نئے قافیے کو پرانے ڈھنگ سے استعمال کرنا بہتر نہیں، اس کے مقابلے میں پرانے قافیے کو نئے رنگ سے نظم کرنا بہتر ہے۔
(۸) قافیہ بدل دیا جائے تو پرانی ردیف بھی نئی معلوم ہونے لگتی ہے۔
(۹) ردیف اور قافیہ کو باہم چسپاں ہونا چاہیے۔ کاواک ردیف سے ردیف کانہ ہونا بہتر ہے۔
(۱۰) قافیہ، معنی کی توسیع بھی کرتا ہے اور حدبندی بھی۔
(۱۱) قافیہ، تضاد اور تطابق دونوں طرح کا حسن پیدا کر سکتا ہے۔
(۱۲) بےقافیہ نظم، مقفیٰ نظم سے مشکل ہوتی ہے، کیونکہ اس کو قافیے کا سہارا نہیں ہوتا۔
پانچواں حصہ
(۱) ہر بحر مترنم ہوتی ہے۔
(۲) ہر شعر کا آہنگ، اس کے معنی کا حصہ ہوتا ہے۔
(۳) شعر کے معنی، اس کے آہنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔
(۴) چونکہ شعر کے آہنگ بہت ہیں اور بحریں تعداد میں کم ہیں، اس لیے ثابت ہوا کہ شعر کا آہنگ، بحر کا مکمل تابع نہیں ہوتا۔
(۵) نئی بحریں ایجاد کرنے سے بہتر ہے کہ پرانی بحروں میں جو آزادیاں جائز ہیں ان کو دریافت اور اختیار کیا جائے۔
(۶) اگر نئی بحریں وضع کرنے سے مسائل حل ہو سکتے تو اب تک بہت سی بحریں ایجاد ہو چکی ہوتیں۔
(۷) ہر لفظ میں وزن ہوتا ہے لیکن الفاظ کے ہر مجموعے میں مطلوب وزن نہیں ہوتا۔
(۸) کبھی کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو الفاظ کا وزن اور مفہوم ایک ہی ہو، لیکن ایک لفظ کسی ایک مقام پر اچھا ’’سنائی‘‘ دیتا ہو۔
(۹) اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہر لفظ کا ایک مناسب ماحول ہوتا ہے، اگر لفظ اس ماحول میں نہیں ہے تو نامناسب معلوم ہوتا ہے۔
(۱۰) بحروں کا تنوع اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر بحر میں ہر لفظ نہیں آ سکتا اور چونکہ معنی لفظ کے تابع ہوتے ہیں، اس لیے ثابت ہواکہ بعض بحروں میں بعض معنی نہیں بیان ہو سکتے۔
(۱۱) اس طرح ثابت ہوا کہ بحروں کا تنوع، معنوی تنوع میں معاون ہوتا ہے۔
(۱۲) بحروں کے مطالعے سے ہمیں اپنی زبان کی آوازوں میں ہم آہنگی کے امکانات کا علم حاصل ہوتا ہے۔
چھٹا حصہ
(۱) مقررہ تعداد کے مصرعوں والے بند کے مقابلے میں غیرمقررہ تعداد کے مصرعوں والے بند کہنا آسان ہے۔
(۲) مقررہ تعداد کے مصرعوں والے بندوں میں معنی کی تکمیل اور مضمون کے تسلسل کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
(۳) آزاد نظم کو سب سے پہلے مصرع طرح کے آہنگ سے آزاد ہونا چاہیے۔
(۴) اگر مصرعے چھوٹے بڑے ہیں تو بہتر ہے کہ ہر مصرعے کے بعد وقفہ نہ ہو۔
(۵) نظم کا عنوان اس کے معنی ک احصہ ہوتا ہے، اس لیے بلا عنوان نظم، عنوان والی نظم کے مقابلے میں مشکل معلوم ہوتی ہے، بشرطیکہ شاعر نے گمراہ کن عنوان نہ رکھا ہو۔ لیکن عنوان اگر ہے تو نظم کی تشریح اس عنوان کے حوالے کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔
(۶) شعر کی تعبیر عام طور پر ذاتی ہوتی ہے، لیکن وہ جیسی بھی ہو اسے شعر ہی سے برآمد ہونا چاہیے۔
(۷) بہت چھوٹے مصرعوں والی نظم اکثر شاعر کی اس کمزوری کا اظہار کرتی ہے کہ وہ لمبی نہیں کہہ سکتا، اس لیے مصرعوں کو چھوٹا کرکے ان کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔
(۸) ہماری زبان میں چھ اور آٹھ رکن کے مصرعے متداول ہیں۔ اس لیے کوشش یہ ہونا چاہیے کہ عام طور پر مصرعے کی طوالت چھ رکن کے برابر طویل اور مختصر سالموں کی طوالت سے کم نہ ہو۔ نظم چاہے نثری ہی کیوں نہ ہو، مصرعوں کا بےجا اختصار اس کے آہنگ کو مجروح کرتا ہے۔
(۹) معرا اور آزاد نظم میں بھی اندرونی قافیہ (اس سے ملتی جلتی ایک چیز علم بیان میں ’’تضمن المزدوج‘‘ کہلاتی ہے) ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔
(۱۰) آزاد نظم کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ مصرعوں کو اس طرح توڑا جائے یا ختم کیا جائے کہ اس سے ڈرامائیت یا معنوی دھچکا حاصل ہو۔ معرا نظم میں بھی یہ حسن ایک حد تک ممکن ہے۔
(۱۱) ہماری آزاد نظم بحر سے آزاد نہیں ہو سکتی۔
(۱۲) آزاد اور نثری نظم کے شاعر کو ایک حد تک مصور بھی ہونا چاہیے۔ یعنی اس میں یہ صلاحیت ہونا چاہیے کہ وہ تصور کر سکے کہ اس کی نظم کتاب یا رسالے کے صفحے پر چھپ کر کیسی دکھائی دےگی۔
ساتواں حصہ
(۱) قواعد، روز مرہ، محاورہ کی پابندی ضروری ہے۔
(۲) لیکن اگر ان کے خلاف ورزی کرکے معنی کا کوئی نیا پہلو یا مضمون کا کوئی نیا لطف ہاتھ آئے تو خلاف ورزی ضروری ہے۔
(۳) لیکن اس خلاف ورزی کا حق اسی شاعر کو پہنچتا ہے جو قواعد، روز مرہ محاورہ پر مکمل عبور حاصل اور ثابت کر چکا ہو۔
(۴) رعایت لفظی اگر محاورہ کی پابندی کے ساتھ ہو تو دونوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
(۵) محاورہ، جامد استعارہ ہے اور کہاوت، جامد اسطور ہے۔
(۶) ایک استعارے سے دوسرا پیدا کرنا یعنی ایک کے بعد دوسرا استعارہ تسلسل میں لانا بہت خوب ہے، بشرطیکہ دونوں میں ربط ہو۔
(۷) متحرک چیز کو متحرک سے، جامد چیز کو جامد سے، یعنی کسی چیز کو اسی طرح کی چیز سے تشبیہ دینا عقل مندوں کا شیوہ نہیں۔
(۸) مرکب تشبیہ، یعنی وہ تشبیہ جس میں مشابہت کے کئی پہلو ہوں، مفرد تشبیہ سے بہتر ہے۔
(۹) یہ کہنا غلط ہے کہ استعارے کا لفظی ترجمہ کر دیا جائے تو وہ تشبیہ بن جاتا ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ استعارے کے مقابلے میں تشبیہ میں لغوی معنی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔
(۱۰) جذباتیت، یعنی کسی جذبے کا اظہار کرنے کے لیے جتنے الفاظ کافی ہیں، یا جس طرح کے الفاظ کافی ہیں، ان سے زیادہ الفاظ، یا مناسب طرح کے الفاظ سے زیادہ شدید طرح کے الفاظ استعمال کرنا، بیوقوفوں کا شیوہ ہے۔
(۱۱) استعارہ جذباتیت کی روک تھام کرتا ہے۔ اسی لیے کم زور شاعروں کے یہاں استعارہ کم اور جذباتیت زیادہ ہوتی ہے۔
(۱۲) الفاظ کی تکرار بہت خوب ہے، بشرطیکہ صرف وزن کو پورا کرنے کے لیے یا خیالات کی کمی پورا کرنے کے لیے نہ ہو۔
آٹھواں حصہ
(۱) شاعری علم بھی ہے اور فن بھی۔
(۲) یہ جو کہا گیا ہے کہ شاعر خدا کا شاگرد ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر کو کسی علم کی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ شاعرانہ صلاحیت اکتسابی نہیں ہوتی۔
(۳) شاعرانہ صلاحیت سے موزوں طبعی مراد نہیں۔ اگر چہ موزوں طبعی بھی اکتسابی نہیں ہوتی، اور تمام لوگ برابر کے موزوں طبع نہیں ہوتے اور موزوں طبعی کو بھی علم کی مدد سے چمکایا جا سکتا ہے، لیکن ہر موزوں طبع شخص شاعر نہیں ہوتا۔
(۴) شاعرانہ صلاحیت سے مراد ہے، لفظوں کو اس طرح استعمال کرنے کی صلاحیت کہ ان میں نئے معنوی ابعاد پیدا ہو جائیں۔
(۵) نئے معنوی ابعاد سے مراد یہ ہے کہ شعر میں جس جذبہ، تجربہ، مشاہدہ، صورت حال، احساس یا خیال کو پیش کیا گیا ہے اس کے بارے میں ہم کسی ایسے تاثر یا کیفیت یا علم سے دوچار ہوں جو پہلے ہماری دست رس میں نہ رہا ہو۔
(۶) ظاہر ہے کہ لفظوں کا ایسا استعمال تخیل کی قوت کو بروئے کار لائے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن معلومات اور علم بھی تخیل کی قوت کو قوی تر کرتے ہیں۔
(۷) شاعری مشق سے ترقی کرتی ہے اور نہیں بھی کرتی ہے۔ صرف مشق پر بھروسا کرنے والا شاعر ناکام ہو سکتا ہے، لیکن مشق پر بھروسا کرنے والے شاعر کے یہاں ناکامی کا امکان اس شاعر سے کم ہے جو مشق نہیں کرتا۔
(۸) مشق سے مراد صرف یہ نہیں کہ شاعر کثرت سے کہے۔ مشق سے مراد یہ بھی ہے کہ شاعر دوسروں (خاص کر اپنے ہم عصروں اور بعید پیش روؤں) کے شعر کثرت سے پڑھے اور ان پر غور کرے۔
(۹) کیونکہ اگر دوسروں کی روش سے انحراف کرنا ہے تو ان کی روش جاننا بھی ضروری ہے۔ دوسروں کے اثر میں گرفتار ہو جانے کے امکان کا خوف اسی وقت دور ہو سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ دوسروں نے کہا کیا ہے؟
(۱۰) تمام شاعری کسی نہ کسی معنی میں روایتی ہوتی ہے، اس لیے بہتر شاعر وہی ہے جو روایت سے پوری طرح باخبر ہو۔
(۱۱) تجربہ کرنے والا شاعر، چاہے وہ ناکام ہی کیوں نہ ہو جائے، محفوظ راہ اختیار کرنے والے شاعر سے عام طور پر بہتر ہوتا ہے۔
(۱۲) تجربے کے لیے بھی علم شرط ہے۔ پس علم سے کسی حال مفر نہیں۔
نوٹ سب حصے اپنی جگہ پر مکمل ہیں لیکن کسی ایک حصے کو الگ کرکے پڑھنا ٹھیک نہیں۔ حصوں کی ترتیب کسی خاص لحاظ سے نہیں ہے۔
شمس الرحمن فاروقی