- Advertisement -

محسن

چشمہ فاروقی کا ایک اردو افسانہ

افسانہ – – محسن

اپنے ہمدرد کو آتا دیکھتے ہی اس کے چہرے پر رونق آگئی۔ اور وہ دوڑ کر اس کا استقبال اپنے انداز میں کرنے لگا۔ آنے والے نے بھی اس کے قریب بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ آجا آجا، میرے دوست، میری جان بچانے والے آجا. دیکھ آج میں تیرے لیے کیا لایا ہوں. یہ مرغ مسلم, بغیر گھی کی روٹی یہ چاول اور یہ دودھ شاباش آجا دونوں مل کر خوب سیر ہوکر کھائیں گے. بہت ہو چکا یہ پرہیزی کھانا – اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت ہم کیوں نہ کھائیں آخر کب تک کوئی پرہیز کرے یار آخر پرہیز کی بھی کوئی حد ہوتی ہے – تین سال سے بھی زیادہ گزر گئے ان چیزوں کو کھائے ہوئے بلکہ ان کی طرف دیکھا بھی نہیں آجا چل شاباش پہلے تو کھا لے پھر تجھے دوائی پلاونگا ۔ اور پھر تیرے زخموں پر بھی مرہم پٹی کر دونگا – اس کا محسن اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا – اور جو کچھ بھی کھانا اس کے سامنے سجایا گیا تھا خاموشی سے مگر جلدی جلدی کھانے لگا اسے یو کھاتا دیکھ کر ہمدرد انسان بولا – یار, یہ بیماریاں بھی بڑی عجیب طرح کی ہوتی ہیں – اب دیکھ نا ہم دونوں ایک ہی بیماری کے شکار ہیں – تجھے تو پتہ نہیں کہ اس بیماری نے تجھے کب پکڑا – مگر میں پچھلے کئی سالوں سے اس قدر پریشان تھا کہ کیا بتاؤں اس سے چھٹکارا پانے کے لیے میں نے جو کچھ بھی کیا وہ تو بھی جانتا ہے اور یہاں کے رہنے والے لوگ بھی – یہ تو اچھا ہے دوست کہ نہ تجھے شوگر ہے اور نہ مجھے ورنہ پتہ نہیں کب یہ مرض ٹھیک ہوتا اور ہوتا بھی یا نہیں – سچ بتاؤں۔ شوگر کے مریضوں کو دیکھتا ہوں تو ان پر بڑا ترس آتا ہے بے چارے پانی پی کر اور ہوا کھا کر ہی جی رہے ہیں – کیوں؟ ٹھیک کہہ رہا ہوں یا نہیں – ارے بھئ دیکھ نا جہاں کسی کو شوگر ہوئی کہ وہاں اس کی میٹھی ہر چیز بن چاہے سبزی ہو چاہے پھل ہو یا دیگر کوئی بھی اشیاء – چاول بن – الو بند چائے بند – چینی بند ہر وہ چیز جس میں میٹھے کی ذرا سی بھی امید ہے مکمل طور پر بند کر دینی پڑتی ہے – میں تو دعا کرتا ہوں اے اللہ اس مرض سے سب کو محفوظ رکھے – ارے یار کم سے کم بول آمین تو بول – اوہ میں تو بھول ہی گیا کہ تو تو پیدائشی گونگا ہے – تیرا کھانا ہوگیا اب تو ذرا سستا لے پھر دودھ کے ساتھ گولیاں ملا کر دے دیتا ہوں ا جب تک تجھے مرہم لگا دوں۔ آجا۔ دیکھ ماشااللہ تیرا زخم کتنا سوکھ گیا ہے دیکھ مجھے دیکھ اب میرے زخم بھی بھرنے لگے ہیں یہ شاید تیری خدمت کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔ کہ میں بھی اب تیری طرح آرام محسوس کرنے لگا ہوں – پھر اس نے اپنے بیگ میں سے دوائیں اور مرہم نکالا پھر دستانے پہن کر اپنے محسن کے جسم پر آہستہ آہستہ مرہم لگانے لگا۔ اس کے بعد دودھ میں دوا ملا کر اسے دیتے ہوئے کہا اب اسے پی لے۔ پیٹ بھرا ہونے کی وجہ سے پہلے تو اس نے انا کانی کی۔ پھر اس کے اسرار اور دولار کرنے پر سارا دودھ پی گیا۔ جب وہ دودھ پی چکا۔ تو اس نے اس کا منہ ہاتھ میں لے کر کہا پیٹ بھر کر کھا لیا دوا بھی پی لی ۔ اب گھر جا کر آرام کر میں رات کو پھر آؤں گا۔ گھر کے باہر مت نکلنا ورنہ پھر انفیکشن ہو جائے گا اور تکلیف پھر بڑھ سکتی ہے ۔ سمجھ گیا نہ؟ چل اب میں چلتا ہوں یہ کہہ کر وہ چلنے لگا تو محسن نے بے معنی اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کی تو اس نے اسے ڈانٹا ارے چل جا گھر میں میرے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ہے یہ کہہ کر اسے گھر میں دھکیل دیا۔ محسن اسے ناراض نظروں سے دیکھنے لگا – اور پھر گھر میں چلا گیا – اس کے جانے پر ہمدرد انسان نے دستانے بیگ میں رکھے اور آپ نے گھر کی طرف چل پڑا –
اسے پچھلے کئی برسوں سے کھجلی کی بیماری ہو گئ تھی اور اس کا سارا جسم زخمی ہو گیا تھا اتنا کہ وہ کپڑے تک کے لیے مجبور ہوگیا اور گھٹنے سے کمر تک کا کپڑا یا تولیہ لپیٹ کر وہ گھر میں قید سا ہوگیا۔ شہر کا ایک ڈاکٹر ایسا نہیں بچا جس سے اس نے علاج نا کرایا ہو۔ اچھے اچھے ڈاکٹر علاج نہ کر سکے اس سے وہ اتنا دل برداشتہ ہوگیا کہ اس نے خود کشی کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے گھر والے بھی بے حد پریشان تھے ہسپتال میں رہنے کے بعد بھی وہ شفایاب نہیں ہوا۔ اس کی بیماری کی وجہ سے گھر میں اس کی ہر چیز علیحدہ کر دی گئی۔ اس بیماری نے اس کی نوکری پر بھی اثر ڈالا – شروع میں تو بیماری کی چھٹی پر گھر میں رہا اور پھر ایسا ہوا کہ نوکری بھی چلی گئی – اللہ کا بہت کرم اور نہ ہی اور نہ ہی اور اور اور و فضل تھا کہ کھاتے پیتے گھر کا چشم و چراغ تھا – اس کی نگہبانی کرنے والے کئی لوگ تھے – جن میں اس کی بیوی پیش پیش تھی – ایسی حالت میں دونوں اولاد کی دولت سے بھی محروم تھے -اس کے گھر والوں کے ساتھ اس کی سسرال والے بھی اس کی صحت کے لئے پریشان تھے۔ اس کے لیے دونوں خاندان دعاگو رہتے تھے۔ بیوی بھی باوفا اور خدمتگزار ملی تھی۔ اس کی خدمت میں دن رات لگی رہتی۔ – اس کی تیمارداری میں کمی نہیں دی۔ اور نہ ہی اپنی محبت میں کوئی کمی آنے دی۔ ایک مشرقی عورت کا اس سے بڑا ظرف کیا ہوگا۔ کہ وہ اپنے شوہر کا ہر حال میں ساتھ دے۔ اسے اپنوں کی خدمات، محبت اور شفقت کا پوری طرح احساس تھا لیکن اپنی تکلیف اور بیماری کو وہ بہتر جانتا تھا اور اس بڑھتی ہوئی بیماری نے اسے خودکشی جیسے گناہ پر اکسایا۔ اور پھر ایک دن سمندری علاقے میں جا کر بھری دوپہر میں پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اس کے پانی میں کودتے ہی ایک اور نے بھی اس کے پیچھے چھلانگ لگا دی اسے بچانے کے لئے۔ وہ شاید اس کے ارادے کو بھانپ چکا تھا۔ اور یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اس طرف کوئی تیرنے کبھی نہیں آتا۔ اس نے بڑی مشکل سے اور قدرت کی بخشی حکمت عملی سے اسے بچا لیا۔ وہاں موجود کچھ لوگوں نے جب یہ سب دیکھا تو پہلے اس کے پیٹ کا پانی نکالا اور جب اس کے جسم کو دیکھا تو گھن کھا کر پیچھے ہونے لگے۔ ایک عورت زور سے چلائی مرد ہو کر خودکشی کرتا ہے شکر کر اس گونگے نے تجھے بچا لیا ۔ سب بولے واہ گونگے تو نے تو کمال کر دیا آخر تیرا ہی بھائی ہے نا۔ اور سب چلے گئے سب کے جانے کے بعد اس کا محسن اس کے پاس بیٹھا رہا۔ تب وہ بھڑک اٹھا ۔ کمبخت تو نے مجھے کیوں بچایا کیوں مرنے نہیں دیا؟ پھر جب اپنے بچانے والے کے جسم پر اس کی نظر پڑی تو وہ کراہتیں ہوئے بولا ارے! تو تو مجھ سے بھی زیادہ بری حالت میں ہے پھر بھی تو نے مجھے بچایا۔۔ کیا یہی رہتا ہے؟ مگر کس کے پاس۔ کون تجھے دیکھتا ہے؟ مجھے دیکھنے والے تو بہت ہیں۔پر تیری تیمارداری کون کرتا ہے، کسی ڈاکٹر کو بھی نہیں دکھایا ہوگا۔ اوہ خدا—- یہ تیرا کیسا انصاف ہے میرے لیے میری خدمت کے لیے گھر بھرا ہے۔ مگر اسے کون دیکھتا ہوگا۔ یہ تو منہ سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔ استغفراللہ۔ معاف کرنا میرے خدا ۔ میں بھول گیا نگہبانی کرنے والا تو تو ہے۔
اے اللہ میرے اس قدم کو معاف کر کہ میں نے گناہ کے لیے سوچا اور اسے عملی جامہ پہنایا پھر اس کے ذریعے تو نے مجھے بچایا شاید اس کی تیمارداری کے لیے ہاں ہاں ایسی بات ہے۔
اس دن کے بعد سے وہ اپنے ساتھ اپنے محسن کا بھی علاج کروانے لگا- صبح شام اس کی تیمارداری کرنا اور اس بے سہارا کو دونوں وقت کھانا کھلانا اب اس کی ذمہ داری میں شمار ہو چکا تھا۔ اور وہ یہ سب کچھ کیوں نہ کرتا آخر وہ اس کا محسن تھا اور اس کی جان بچائی تھی۔ اور اس تیمارداری کی وجہ سے اللہ کو بھی اس پر رحم آ گیا تھا۔ کیوں کہ اپنے محسن کے ساتھ وہ بھی صحت یاب ہونے لگا تھا۔
کبھی کبھی نا کردہ گناہ کی سزا بھی اللہ تعالی دنیا میں دکھاتا ہے۔ اس وقت بھی اگر نیک کام کی ترغیب انسان اپنائیں تو اس کا اجر نظر آنے لگتا ہے۔ اور ایک دن ان کی زندگی میں وہ وقت بھی آیا۔ کہ ان دونوں نے خدمت تیمارداری اور دعاؤں سے شفا حاصل کرلی۔ اب ہمدرد انسان اچھے کپڑے پہننے لگا وہیں اس کے محسن کا حسن بھی ظاہر ہونے لگا۔ اسی خوشی میں اس نے اپنے محسن سے ایک دن کہا دوست یہ ضرور میرے کسی بڑے گناہ کی سزا تھی جو مجھے مل گئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس بیماری سے چھٹکارا دلا دیا۔ آو اب تم اس گھر میں نہیں رہو گے ہمارے ساتھ ہمارے گھر کے باہر اچھے گھر میں رہو گے جہاں تمہیں آرام ملے گا چلو گھوم پھر کر آتے ہیں۔ مگر مجھے اب چھونے کی کوشش مت کرنا۔ ورنہ نماز پڑھنے کے لیے غسل کرنا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نےاپنے محسن کو چمکارا اور پھر وہ گونگا محسن اس کے ساتھ اس کے آگے پیچھے دائیں بائیں اچھلتے کودتے اور دم ہلاتے ہوئے چلنے لگا۔

چشمہ فاروقی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عادل وِرد کی ایک اردو نظم