وہ قامتِ بلند نہیں در قبائے ناز
اک سروِ ناز ہے جو بنا ہو برائے ناز
اُس نازنیں پہ ختم ہیں سب شیوہ ہائے ناز
جس کو بنا کے خود بھی ہے نازاں خدائے ناز
کیا کیا نہ آرزو کے بڑھیں دل میں حوصلے
رکھ دیں کبھی جو فرقِ ہوس پردہ پائے ناز
اربابِ اشتیاق ہیں اور انتہائے شوق
حالانکہ حُسن یار ہے اور ابتدائے ناز
کچھ یوں ہی اپنے حُسن پر مغرور تھا وہ شوخ
کچھ لے اُڑی ہے اور بھی اسکو ہوائے ناز
حسرت موہانی