رنج کا جب سے یہ خُوگر ہو گیا
دل مِرا دیکھو تو پتّھر ہو گیا
دُشمنی میری کسی سے بھی نہیں
کیوں نِشانے پر مِرا گھر ہو گیا
جِس کو تُم دیوانہ کہتے تھے ، وہ اب
حُکمِ ربّی سے قلندر ہو گیا
جس نے لیں ماں کی دُعائیں خیر سے
وہ مُقدّر کا سِکندر ہو گیا
جس نے کی شیطان کی بس پَیروی
اُس کا بدتر پھِر مُقدّر ہو گیا
ڈولتا ہے آنسُؤوں میں یہ وجُود
اشکِ غم گویا سمندر ہو گیا
ساتھ اُس کے رہنا ہے ہر حال میں
یہ سبق “ شہناز “ ازبر ہو گیا
شہناز رضوی