انسانوں میں اپنے ارد گرد موجود حیاتیاتی‘مادّی اور سماجی دُنیا سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کا اشتیاق ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ انسانوں کی اس متجسّس فطرت نے اس دُنیا کے حیاتیاتی‘مادّی اور سماجی پہلوؤں سے متعلق بہت سی معلومات اکٹھا کرنے میں مدد کی ہے۔ زمانہ قدیم سے اَب تک انسانوں نے اپنے اطراف کی دُنیا کو سمجھنے کے لئے متنوع طریقے استعمال کئے ہیں‘روایت (tradition) اور ذاتی تجربات (personal experiences) زمانہ قدیم میں کسی چیز سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے واحد طریقے تھے۔ بعد میں الہامی علم یا (revealed knowledge) جیسا کہ مذہبی کتابوں کی شکل میں موجود تھا۔ ماہرین کے مشورے (advice expert) جانکاری حاصل کرنے کے رائج طریقے بن گئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ارسطو کی تجویز کردہ استخراجی منطق(deductive logic) جس میں عمومی بیانات سے خصوصی واقعات کے بارے میں منطقی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔معلومات حاصل کرنے کے طریقے کے طور پر مشہور ہوا۔ بعد از ایں فرانسس بیکن کی وکالت کردہ استقرائی منطق (inductive logic) جس میں خصوصی واقعات کے مشاہدے سے عمومی نتائج اخذ کرتے ہیں۔اور چارلس ڈارون کا عام کردہ استقراء – استخراجیی طریقہ (inductive-deductive method) سوچنے اور جاننے کے معقول طریقے بن گئے۔سوچنے اورجانکاری کا یہی طریقہ آگے چل کر سائنسی طریقہ کار کی بنیاد بن گیا۔ اس طرح سائنس علم حاصل کرنے کے ایک طریقہ کار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ جان ڈیوی جیسے فلسفیوں نے یہ وکالت کی کہ مادّی اور قدرتی دُنیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے ایسا طریقہ استعمال کرنا چاہیے جو سائنسی طریقہ کار پر مبنی ہو۔اس طرح سائنسی تحقیقی عمل (process of scientific inquiry) کو پہلے پہل مادّی سائنس (physical science) کے طریقے کے طور پر استعمال کیا گیا اور بعد میں اسکو انسانی طرز عمل سے متعلق سائنسوں (behavioural sciences) میں بھی دھڑلے کے ساتھ استعمال کیا جانے لگا۔یہ بات تو سب بخوبی جانتے ہیں کہ تحقیق کا مقصد اُن پہلوؤں پر کام کرنا ہوتا ہے جونظر سے اوجھل ہوتے ہیں‘اُن نظریات کو منطقی دلیل سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو برسوں سے ہمیں گمراہی کی جانب دھکیلے جا رہے ہوتے ہیں۔
کسی بھی انسان کیلئے تحقیقی منصوبے پر کام کرنا ایک دلچسپ اور فائدہ مند تجربہ ہوتا ہے‘جس کے ذریعے وہ اپنی مہارتوں میں نکھار لاتا ہے۔ تحقیق کے ذریعے انسان دلچسپ موضوعات کی گہرائی تک پہنچتا ہے اور درپیش مسائل کا حقیقی مطالعہ کرتا ہے۔ تحقیق کے دوران کھوج لگاتے ہوئے ہر مرحلے پر انسان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔کسی بھی موضوع پر تحقیق کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا دائرہ کار مزیدوسیع ہوتا چلا جاتا ہے‘مثلاًدوران ِتحقیق ہم محسوس کرتے ہیں کہ ایک سوال کے بعد دوسرا سوال پیدا ہورہا ہے۔ یہ سوالات نئے خیالات‘تصورات‘تجزیات اور بہتر صورتحال کا اشارہ ہوتے ہیں‘جو بعد میں ایک بہترین، متاثر کن اور توقع کے عین مطابق ڈیٹا کی تیاری میں خاصے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں جنھوں نے مستقبل میں سارے نظام کی باگ ڈور سنبھالنے کا فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ اس بیش بہا اہمیت کے سبب ہر فکر مند قوم کے افراد اپنے نوجوانوں کی بہترین تعلیم و تربیت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھتے ہیں۔ وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں کہ نوجوانوں کی درست راہنمائی ہی ملک و ملت کے روشن مستقبل کی ضامن ہے اور اگر اس اہم اور عظیم ذمہ داری سے پہلو تہی کی گئی تو اس کا خمیازہ بھی لازماً بھگتنا پڑے گا۔اس حوالے سے سے ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی سرگرمیاں لائق تقلید ہیں کہ اس اہم موضوع پر بہت سا لٹریچر لکھا جاتا ہے‘سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں‘نوجوانوں کی نفسیات اور پیش آمدہ مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے، والدین کو بحیثیت والد اور والدہ ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔مگر ہمارے معاشرے میں ان باریک موضوعات پر تحقیق کرنے کی ریت نہیں ہے۔ شاید ہم اس کو اتنا بڑا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے اسی لیے اس اہم موضوع پر لکھنے‘ بولنے‘ سمجھنے اور سمجھانے کی جتنی زیادہ ضرورت ہے ہم اتنا ہی اس کام میں پیچھے ہیں۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں کچھ نوجوان تحقیق کا شوق رکھتے ہیں‘ اس سلسلہ تحقیقی مواد (کالم) پر مبنی بہترین کتاب ”مقصد ِ حیات“ کے نام سے تصنیف کی گئی ہے۔ یہ کتاب تحقیقی‘معاشرتی‘سماجی اور صحافتی موضوعات پر ضخیم کتاب جو 603صفحات پر مشتمل ہے -یہ کتاب نوجوان مصنف عابد ضمیر ہاشمی کے ان کالمز کا حاصل ہے جو وہ مختلف قومی اخبارات میں لکھتے رہے ہیں -اُنہوں نے پاکستان اور کشمیر سے چھپنے والے تقریبا ً ہر مشہور اخبار کے لئے لکھا ہے -ان کی تحاریر پختہ‘موضوع کے لحاظ سے مستند،با مقصد اور مفید ہیں -وہ معاشرے میں ہونے والی خوبیوں اور خامیوں کا گہری نظر سے تجزیہ کرتے ہیں -وہ عصری تقاضوں کا ادراک رکھنے والے عمدہ نثر نگار ہیں -انہوں نے ہر موضوع پر لکھا ہے اور خوب لکھا ہے -یہ کتاب تحقیق کے طالب علموں کے لئے نہایت مفید اور اُردو اَدب میں خوبصورت اضافہ ہے-بلاشبہ عابد ضمیر ہاشمی مبارک باد کے مستحق ہیں‘انہوں نے کم عمری جو کارنامہ انجام دیاہے اس کے لئے بڑے بڑے لکھاری رشک کر سکتے ہیں -یہ کتاب تحقیق کے طالب علموں کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
تحقیق کسی بھی معاشرے کی سماجی اور معاشری ترقی کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے تحقیق کے ذریعے بڑے بڑے میدانوں میں ترقی حاصل کی ہے۔ یہ ایک ایسا قیمتی اثاثہ ہے‘ جو انسان کے لئے سماجی اور معاشری ترقی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ضروریات کبھی ختم نہیں ہوسکتیں‘ایک نیا دن نئی خواہش کا اضافہ کردیتا ہے‘جس کے باعث تحقیق کی اہمیت مزید دگنی ہوتی چلی جاتی ہے۔ہمارے ملک کے نوجوان بھی دوسرے ممالک کے نوجوانوں کی طرح بہترین تحقیقی مقالے لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انھیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیق کے لیے بہترسہولتیں فراہم کریں تاکہ وہ کائنات کے چھپے رازوں کا کھوج لگائیں۔ اس کے ذریعے ہی ہم سماجی اور معاشرتی میدان میں ترقی کرسکتے ہیں۔
نازمظفرآبادی