- Advertisement -

پنڈ کی دعوت اور ککڑ کی شامت

ف ع کی ایک اردو تحریر

پنڈ کی دعوت اور ککڑ کی شامت

آج ایک بھائی کی پلیٹ میں دیسی مرغے کی ٹانگ دیکھ کر ایک واقعہ یاد آگیا ۔ سوچا آپ سب کو بھی سنا دیتے ہیں ۔ ہمارے گھر میں بہت کم ایسا ہوا ہو گا کہ گوشت بازار سے آیا ہو ۔ گھر کا بکرا ذبح کر کے فریز کیا جاتا ۔لیکن یہ سب کچھ ہم نے اپنی آنکھوں سے کبھی ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ۔

گاوں سے گوشت اور دودھ لاہور آتا تھا ۔ آٹا ، چاول، کچھ دالیں مصالحے ۔ ہمکو یہ سب تفصیل سے اپنی adult age میں آنے کے بعد پتا چلا ۔ یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں گوشت خریدنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ چھوٹے دیسی چکن کی کڑھائی بنا کرتی اور ریٹائرڈ سپہ سالار ٹائپ کے مرغے کا شوربا ۔ لیکن ہم نے سپہ سالار صاحب کو کبھی پکنے کے بعد دیکھا نہیں تھا نہ ہی کھایا ۔

پہلے تو آپکو یہ بتاتے چلیں کے یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے ۔ اوپر سے سسرال کا معاملہ تو ذرا نام پتہ بدل دیں گے ۔ ہمارا میکہ اور سسرال ایک ہی شہر میں ہے ، سمجھیں جھنگ ، چنیوٹ کی طرف ۔

میاں صاحب بہت چھوٹی عمر میں امریکہ تشریف لے آئے تھے تو کچھ معاملات میں انکی معلومات آج سے 20 ،21 سال پہلے صفر تھیں اور ہمارے دیور بھائی باس تھے ۔ خیر ہماری نانی ساس پاکستان آئیں اور دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ہمارے بہت قریبی سسرالی انکل کی کال آئی اور ماں جی سے کہنے لگے ” اماں جی تسی تے بچے آج روٹی ساڈے کول کھاون آو ” ۔

اماں جی نے اپنی پوری کوشش کی کے بچت ہو جائے لیکن ایسے لگتا تھا وہ انکل ڈنڈے اور بندوقیں لے کر تشریف لے آئیں گے اور ہمکو گن پوائنٹ پر دعوت کھانا پڑے گی ۔ ہمارے دیور صاحب جنکا نام آپ بلند اختر فرض کر لیں اس واردات کا ایک اہم رکن ہیں ۔ ان سے رجوع کیا گیا ۔ ہم نے کال ملا کر دی اماں جی کی بات سن کر انکو بہت غصہ آیا بولے بھابھی جی ، اماں جی اور بھائی جان تیار ہو جاو ہم نے ضرور جانا ہے ۔

خیر سردیوں کے دن تھے ہم چل پڑے ۔ جب وہاں پہنچے تو اماں جی کا برا حال تھا کچی سڑک جھٹکے کچھ نہ پوچھیں اماں جی دل کے مریض تھے ۔ میزبان چاچا جی کی دو بیگمات تھیں اور ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھیں ۔

بھائی بلند اختر ہم سے عمر میں بڑے ہیں لیکن ہمکو بھابھی جی بلاتے ہیں کبھی نام نہیں لیا ۔ بیگم نمبر 1 کو اللہ نے کاکے سے نوازا تھا تو ذرا انکو پروٹوکول ذیادہ مل رہا تھا ۔ اماں جی چائے پانی پینے کے بعد آہستہ سے بولے کے اب ہم واپس چلیں گے ۔

شام ہو رہی ہے راستہ ٹھیک نہیں ۔ لیکن انھوں نے کہا آپکو کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دیں گے بلکہ صبح ناشتہ کرا کے پھر بھیجیں گے ۔ اماں جی بولے کے میرا تو کھانا ہی پرہیزی ہوتا ہے ۔ لیکن نہ جی کسی کی ایک نہ چلی ۔

ہم انکے وڈے صحن میں چارپائیوں پر بیٹھے تھے ۔ کچھ دور ہی انکل میزبان اور انکی بیگم نمبر 2 نے ہمارے سامنے ہی یکے بعد دیگرے دو فوجی ٹائپ کے مرغے ذبح کیے ۔ اور بیگم نمبر 1 نے اپنا پیمپر لیس کاکا ہماری گودی میں ڈالا اور پاس ہی مٹی کے چولہوں میں آگ جلانی شروع کر دی ۔

تب تک ہماری آنکھوں میں آنسو آچکے تھے ۔ ایک تو سرمے والے کاکے کے ارادوں سے ڈر لگ رہا تھا اور دوسرے جو مرغوں کا قتل عام شروع ہو چکا تھا اس سے دل بھر آیا ۔ بیگم نمبر 1 نے اس کار عام سے فارغ ہونے کے بعد بالکل دو گھونٹ پانی سے ہاتھ دھوئے اور انکو رگڑ کر اپنی چادر سے صاف کرنے کے بعد ہمارے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئیں ۔

ہمکو خون کی شدید ہمک آ رہی تھی اور ایسے لگ رہا تھا کہ بے ہوش ہو جائیں گے بولیں تسی شہراں دے رہن والے ہو اس لئے تواڈے وچ طاقت کوئی نہیں ۔ بولیں میں ووہٹی کو سب رشتے داروں سے ملوانے لے جا رہی ہوں ۔ بھائی بلند اختر نے منع کر دیا وہ تھوڑا غصے میں آ گئیں لیکن انکل میزبان اٹھے اور کہنے لگے ابھی آیا ۔

انھوں نے مسجد میں اعلان کرا دیا کے ہمارے گھر فلاں فلاں مہمان آئے ہیں آ کر مل لو ۔ اس کے بعد جو ہوا نہ پوچھیں اماں جی نے ہمارے اوپر بھائی بلند اختر کی گرم چادر ڈال دی ۔ اور منہ ہی منہ میں انھوں نے سب خواتین کو پنجابی اور سرائیکی کی قریبا سب گالیاں نکالنی شروع کر دیں۔ ایک جتھا جب نمائش دیکھ کر نکل جاتا تو اماں جی کہتے ہائے میری کڑی تے منڈے نو ایناں نظر لا چھڑنی اے ۔

چل وے بلند اخترا نکل چلیے !!!! بھائی بلند اختر کہتے نہیں اماں جی ہن اینج نئیں ۔ خیر فوجی مرغوں کا پلاو اور سالن پک گیا ۔ ایک کمرہ جس کی چاروں دیواروں میں دو پٹ والے دروازے تھے اس میں ڈائننگ ٹیبل پر دسترخوان لگا کر ہمکو بٹھا دیا گیا۔

پلاو ، فوجی مرغے کا سالن ، تندوری روٹیاں ، رائتہ اور پتہ نہیں کسٹرڈ تھا یا کچھ اور کیوں کے وہ کسی نے بھی چکھا نہیں تھا ، لگا دیا گیا ۔ دروازے بند کر دئیے گئے ۔ اماں جی نے تھوڑے سے چاول اور مصالحہ لیا ، ہمیں بلند اختر بھائی نے زبردستی تھوڑے سے چاول اور رائتہ ڈال دیا ۔ اسکے بعد جو ہوا وہ اصل کہانی ہے ۔

پہلے انھوں نے سالن میں سے بوٹیاں نکال نکال کر کھانی شروع کیں۔ وہ بھی کچھ اس طریقے سے کہ ایک بوٹی نکال کر کہتے آبھائی جواناں یہ تیری سجی لت ہے ، یہ تیری کھبی لت ہے ۔ آبھائی یہ تیرا سینہ ہے ، یہ تیری پٹ کی بوٹی ہے ، صاحب اور ہم ہنس ہنس کر پاگل ہو رہے تھے ۔

وہ اچھی گرج دار آواز میں کہتے جواناں تیری وجہ توں سانوں گھر جاندیاں رات ہو جانی اے کتھے گیا اے تیرا دوجہ پٹ ۔ میں تیرے توں سارا حساب لینا اے سوہنیا ۔ انھوں نے گن گن کر پہلے سالن میں سے پورا مرغا ختم کیا پھر یہ ہی سین پلاو کے ساتھ ہوا ۔ آخر میں بہت گرجدار آواز میں بولے پلاو دے چاولاں دا چونکے آپس وچ پیار بہت سی اس لیے مینوں گردن تے سینے دی چھوٹی بوٹی نئی ملی ۔

چاول بہت نرم تھے ۔ ساتھ ہی دروازہ کھلا اور میزبان انکل کا ایک سپوت اندر آکر کہتا ہے چاچو جی او بوٹیاں وڈی امی اور چھوٹی امی جی نے لون چکھن لئی کھایاں سی ۔

ہم بہت ضبط سے بیٹھے رہے لیکن گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی ہم سب کی ہنسی نہیں رک رہی تھی ۔ بات کچھ رہن سہن اور طریقے سلیقے کی بھی ہوتی ہے ۔ جن انکل کی بات ہو رہی ہے انکی قریبا 150 ایکڑ کے قریب زمین ہے ۔ انکی بیگمات ہر شادی بیاہ پر کم از کم 50، 60 تولہ each سونا پہنے نظر آتی ہیں ۔

لیکن طریقے سلیقے کی شدید کمی ہے ۔ خیر وہ انکا خلوص تھا جسکی ہم قدر کرتے ہیں ۔ ایک دفعہ وہ آنٹی ہماری پاکستان آمد پر تشریف لائیں بتاتے چلیں ہمارے میکے اور ان آنٹی کے سسرال کی آپس میں خاندانی ان بن ہے ۔ تو ہماری والدہ اس قبیلے کو ہمارے میاں صاحب اور نانی ساس مرحومہ کی وجہ سے برداشت کیا کرتیں تھیں ۔

اماں نے بہت شوق سے مرغ چنے اور آلو کی بھجیا بنوا رکھی تھی ہمارے میاں صاحب خصوصی فرمائش کیا کرتے تھے ۔ آنٹی نے بدنام کر دیا مہماناں تے جوائی پائی دے لئی آلو اور دال پکائی اے ۔ اللہ سبکو ہدایت دے۔ میاں صاحب آج بھی ہمکو وہ دعوت یاد کرا کے دھمکاتے ہیں ۔

ف ع

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سعید خان کی اردو نظم