آپ کا سلاماردو نظمشعر و شاعریگلناز کوثر

اجل کے لمحو

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

یہ کِشت اُلفت کی زرد مٹی

یہ سہمی شب کے اُداس تارے

سوال دستِ اجل کی جانب

ہزار حیرت سے تک رہے ہیں

ابھی لہو سے کسی بھی چہرے کا

نقش بننے میں دن پڑے تھے

زمیں کے آنچل سے بیج باندھے ہی تھے صبا نے

کہ جن سے زندہ دھڑکتی کونپل کو پھوٹنا تھا

سنہری ، نوخیز ، نرم کونپل

جو دلبری کے حسیں مناظر کا آئینہ تھی

جو چاند راتوں سے گزرے لمحوں کا نقش پا تھی

وہ ننھی ، معصوم ، بند پلکیں

کسی بھی روشن ، حسین ساعت

کسی بھی تیرہ ، اداس لمحے

سے بے خبر تھیں …

ادھورے ہونٹوں کی نغمہ گہ سے

نکلتی بے صوت ان صداؤں سے

گیت بننے میں

دن پڑے تھے

بہ نوکِ نشتر ہیں

آرزوئوں کے سارے ریشے

ستم نوازی کی داستاں بھی

بدن کی سلوٹ سے پھوٹتی

شاخِ بے اماں بھی

کہ جس پہ چاہت کے پھول آنے میں

دن پڑے تھے

اجل کے لمحو

بدن کی گٹھڑی سے

زندگی کا سراغ پانے

میں دن پڑے تھے

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button