اردو غزلیاتذوالفقار عادلشعر و شاعری

ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی نہیں گئے

ذوالفقار عادل کی ایک اردو غزل

ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی نہیں گئے

اور انتہا تو یہ ہے کہ گھر بھی نہیں گئے

وہ خواب جانے کیسے خرابے میں گم ہوئے

اس پار بھی نہیں ہیں ادھر بھی نہیں گئے

صاحب تمہیں خبر ہی کہاں تھی کہ ہم بھی ہیں

ویسے تو اب بھی ہیں کوئی مر بھی نہیں گئے

بارش ہوئی تو ہے مگر اتنی کہ یہ ظروف

خالی نہیں رہے ہیں تو بھر بھی نہیں گئے

عادلؔ زمین دل سے زمانے خیال کے

گزرے کچھ اس طرح کہ گزر بھی نہیں گئے

ذوالفقار عادل

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button