ایک مخلوق نے اس کی تخلیق کی
خاکِ سفاک سےاس کا نطفہ بنایا گیا
رحمِ بے رحم کے گھپ اندھیروں میں رکھا گیا
آتش ِ بغض سے سارے اعضا بنا کر انہیں
گدلے آبِ تعصب کی تلچھٹ سے دھویا گیا
سازشی استخواں جوڑ کر
لحمِ نفرت سے اسپرخد و خال لکھے گئے
اور دل
سرخ سنگِ شقاوت کے بے جوڑ ٹکڑے سے ڈھالا گیا
کوہ ِ کینہ سے سینہ تراشا گیا
عقربی ذہن کو
اپنے کالے عقیدوں کی تعظیم کرتے ہوئے
دوسرے ہر عقیدے کی توہین کرنی سکھائی گئی
زہرِ سیال تشنہ رگوں میں بہایا گیا
اور پھر
زردجلتی بھلستی ہوئی جلد ڈھانچے پر مڑھ دی گئی
خالق خیر و شر
سب بجا ہےمگر
اس زمانے کی فریاد کس سے کریں
جس میں چاروں طرف دستِ خوں ریز ہیں
مذہبی گُرگ ہو یا کوئی دہریہ بھیڑیا
دانت اور کچلیاں ایک سے تیز ہیں
کیا زمانہ ملا ہے ہمیں
جس میں اس خوک کو خوب کہنے کی تاکید ہے
کیا زمانہ ملا ہے ہمیں
جس میں اس نیم انسان مخلوق سے
ربط رکھنا بھی لازم ہے اور رابطے کے فقط
دو ہی امکان ہیں
دوستی دشمنی
نیم انسان دو پایہ مخلوق سے
دوستی دشمنی دوہی امکان ہیں
شہر ویران ہیں
فیصلے کی گھڑی سر پہ ہے
لوگ بے جان ہیں
کیا کریں ؟کیا کریں ؟
یہ جو انسان ہیں
سعود عثمانی