حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے پہلی بیوی ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی والدہ اور حضرت حسن وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی نانی تھیں ۔ اُن کے والد کا نام خویلد، دادا کا نام اَسد اور والدہ کا نام فاطمہ اور نانی کا نام زائدہ تھا،نسباً قریشیہ تھیں،چالیس سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کی، اُس وقت جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر شریف پچیس سا ل تھی۔ ( استیعاب و اصابہ )
سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے یکے بعد دیگرے دو شوہروں سے نکاح کر چکی تھیں اور ہر ایک سے اَولاد بھی ہوئی تھی۔ ایک شوہر ابوہالہ اور دُوسرے عتیق بن عائز تھے۔ اِس میں سیرت نگاروں کا اِختلاف ہے کہ اِن دونوں میں اوّل کون تھے اور دوم کون؟ صاحبِ استیعاب اِس اختلاف کو نقل کرنے بعد ابوہالہ کو اوّل اور عتیق کو دوم قرار دینے کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَالْقَوْلُ الْاَوَّلُ اَصَحُّ اِنْشَآءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ (پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے اِنشاء اللہ تعالیٰ )۔
حرمِ نبوت میں کیونکر آئیں
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دونوں شوہر یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے تو اُن کی شرافت اور مالداری کی وجہ سے مکہ کا ہر شریف اِس کا متمنی ہوا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے عقد کرے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اَشرف الخلائق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاحِ پُر فلاح میں آنا نصیب ہوا اور ام المؤمنین کے مکرم لقب سے نوازیں گئیں ۔
سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر شریف جن پچیسویں برس کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ابو طالب نے کہا کہ میں مالدار آدمی نہیں ہوں جو میں تم کو مال دے کر تجارت کراؤں اور چونکہ یہ دِن سختی سے گزر رہے ہیں اِس لیے کسبِ معاش میں لگنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا تم ایسا کرو جس طرح تمہارے قوم کے دُوسرے لوگ خدیجہ کا مال شام لے جا کر بیچتے ہیں اور اِس میں نفع کماتے ہیں اِسی طرح تم بھی اُن کا مال شام لے جا کر فروخت کر کے نفع حاصل کرو۔
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اِس کی خبر لگی کہ محمد بن عبد اللہ الامین کو اُن کے چچا میرا مال شام لے جا کر فروخت کرنے کو فرما رہے ہیں تو اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دیانت و اَمانت داری اور معاملہ کی راست بازی کی وجہ سے خود ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرا مال شام لے جائیں ۔ دُوسروں کو جو نفع دیتی ہوں آپ کو اُس سے دُگنا نفع دُوں گی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منظور فرمایا اور اَسبابِ تجارت لے کر شام کو روانہ ہوئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ایک غلام بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کر دیا تھا جس کا نام میسرہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہایت دانشمندی سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کی تجارت کی جس کی وجہ سے اُن کو گزشتہ پچھلے سالوں کی بہ نسبت اِس سال بہت زیادہ نفع ہوا۔
راستہ میں میسرہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت باتیں دیکھیں جو عام آدمیوں کی نہیں ہوتی ہیں جن کو عربی میں ” خَوَارِقُ الْعَادَةْ ” کہتے ہیں اور یہ بات بھی پیش آئی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کے سفر میں ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا تو وہاں ایک راہب بھی موجود تھا۔ اُس نے میسرہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کون صاحب ہیں ؟ میسرہ نے کہا یہ مکہ کے باشندہ ہیں اور قریشی نوجوان ہیں ۔ راہب نے کہا یہ نبی ہوں گے جس کی وجہ یہ تھی کہ اُس راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اندر نبی آخر الزمان کی وہ علامتیں دیکھ لی تھیں جو پہلی کتابوں میں لکھی تھیں ۔
شام سے واپس ہو کر جب مکہ میں داخل ہو رہے تھے تو دوپہر کا وقت تھا۔ اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے بالا خانے میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اُن کی نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پڑی تو دیکھا کہ دو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سایہ کیے ہوئے ہیں اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے غلام میسرہ سے بھی (اِسی قسم کے ) عجیب عجیب حالات سنے اَور رَاہب کا یہ کہنا بھی میسرہ نے سُنادیا کہ یہ نبی آخرالزماں ہوں گے۔ لہٰذا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود ہی نکاح کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔
یعلیٰ بن اُمیہ کی بہن نفیسہ نامی پیغام لے کر گئیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منظور فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب نے بھی بخوشی اِس کو پسند کیا۔ نکاح کیلیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب اور خاندان کے دیگر اکابر حضرت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے اور نکاح ہوا۔ اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد زندہ نہ تھے وہ پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ ہاں اِس نکاح میں اُن کے چچا عمرو بن اَسد شریک تھے اور اِن کے علاوہ حضرتِ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاندان کے دیگر اکابر کو بھی بلایا تھا۔ عمرو بن اَسد کے مشورہ سے ٥٠٠ درہم مہر مقرر ہوا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ”اُمّ المؤمنین” کے مشرف خطاب سے ممتاز ہوئیں ۔ (الاصابہ و اُسد الغابہ)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں مکہ والوں کی عورتیں ایک خوشی کے موقع پر جمع ہوئیں ۔ اُن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں ۔ اچانک وہیں ایک شخص ظاہر ہو گیا جس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکہ کی عورتوں ! تمہارے شہر میں ایک نبی ہو گا جسے” احمد” کہیں گے تم میں سے جو عورت اُن سے نکاح کرسکے ضرور کر لے۔ یہ باتیں سن کر دُوسری عورتوں نے بھول بھلیّو ں میں ڈال دی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گرہ باندھ لی اور اِس پر عمل کر کے کامیاب ہو کر رہیں ۔ (الاصابہ)
حضرت خدیجہ سب سے پہلے اِسلام لائیں اور اِسلام کے فروغ میں پوری طرح حصّہ لیا
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ مَنْقبَتْ حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہوئیں یعنی حضور اَقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوتِ اسلام تمام اِنسانوں سے پہلے اِنہوں نے قبول کی۔ اِن سے پہلے نہ کوئی مرد اِسلام لایا نہ عورت نہ بوڑھا نہ بچہ۔
صاحبِ مشکوٰة الا کمال فی اسما ء الرجال میں لکھتے ہیں
وَھِیَ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ مِنْ کَافَّةِ النَّاسِ ذَکَرِھِمْ وَاُنْثَاھُمْ ۔
” تمام اِنسانوں سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اِسلام لائیں ۔ تمام مردوں سے بھی اور تمام عورتوں سے بھی پہلے۔”
وَمِثْلُہ فِی الْاِسْتِیْعَابِ حَیْثُ قَالَ نَاقِلاً عَنْ عُرْوَةَ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ خَدِیْجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھَا۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ البدایہ میں محمد بن کعب سے نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں
اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ خَدِیْجَةُ وَاَوَّلُ رَجُلَیْنِ اَسْلَمَا اَبُوْبَکْرٍ وَعَلِیّ
”اُمت میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا۔ اور مردوں میں سب سے پہلے اِسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکر و حضرت علی رضی اللہ عنہما ہیں ۔”
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا
وَقَدْ اٰمَنَتْ بِیْ اِذْ کَفَرَ بِیَ النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِیْ اِذْکَذَّبُوْنِیْ وَاٰنَسَتْنِیْ بِمَالِھَا اِذْ حَرُمَنِیَ النَّاسُ وَرَزَقَتْنِیَ اللّٰہُ وُلْدَھَا اِذْ حَرُمَنِیْ اَوْلَادُ النِّسَآءِ ۔(البدایہ)
”وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ میری رسالت کے منکر تھے اَور اُنہوں نے میری تصدیق کی جبکہ لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور اُنہوں نے اپنے مال سے میری ہمدردی کی جبکہ لوگوں نے مجھے اپنے مالوں سے محروم کیا اور اُن سے مجھے اللہ نے اَولاد نصیب فرمائی جبکہ دُوسری عورتیں مجھ سے نکاح کر کے اپنی اَولاد کا باپ بنانا گوارہ نہیں کرتی تھیں ۔ ”
اِسلام کے فروغ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بہت بڑا حصّہ ہے۔ نبوت سے پہلے حضور اَقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تنہائی میں عبادت کرنے کے لیے غارِ حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے کھانے پینے کا سامان تیار کر کے دے دیا کرتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غارِ حرا میں کئی کئی رات رہتے تھے۔ جب خوردو نوش کا سامان ختم ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے تھے۔
ایک دِن حسبِ معمول آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حراء میں مشغولِ عبادت تھے کہ فرشتہ آیا اور اُس نے کہا اِقْرَأْ یعنی پڑھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ فرشتہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکڑ کر اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے بھینچ کر چھوڑ دیا اور پھر کہا اِقْرَأْ (پڑھیے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہی جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ فرشتہ نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے دبا کر چھوڑ دیا اور پھر پڑھنے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ فرشتہ نے پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکڑ کر اپنے سے چمٹایا اور خوب زور سے دبا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چھوڑ دیا اور خود پڑھنے لگا۔
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o
یہ آیات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یاد فرما لیں اور ڈرتے ہوئے گھر تشریف لائے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ (مجھے کپڑا اُڑھا دو مجھے کپڑا اُڑھا دو) اُنہوں نے آ پ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کپڑا اُڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی طبعی کیفیت جاتی رہی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اپنا سارا واقعہ سنا کر فرمایا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ (مجھے اپنی جان کا خوف ہے )۔
عورتیں کچی طبیعت کی ہوتی ہیں مرد کو گھبرایا ہوا دیکھ کر اُس سے زیادہ گھبرا جاتی ہیں لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ذرا نہ گھبرائیں اور تسلی دیتے ہوئے خوب جم کر فرمایا
کَلَّا وَاللّٰہِ لَایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلیٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ ۔
”خدا کی قسم ہرگز نہیں ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہاری جان کو مصیبت میں ڈال کر تم کو رُسوا کرے(آپ کی صفات بڑی اچھی ہیں ایسی صفات والا رُسوا نہیں کیا جاتا)آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور مہمان نوازی آپ کی خاص صفت ہے۔ آپ بے بس وبے کس آدمی کا خرچ برداشت کرتے ہیں اور عاجزو محتاج کی مدد کرتے ہیں اور مصائب کے وقت حق کی مدد کرتے ہیں ۔”
اِس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور اُن سے کہا کہ اے بھائی ! سنو یہ کیا کہتے ہیں ؟ ورقہ بن نوفل بوڑھے آدمی تھے بینائی جاتی رہی تھی عیسائیت اختیار کیے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ نے کیا دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کو پوری کیفیت سے آگاہ فرمایا تو اُنہوں نے کہا
ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلیٰ مُوْسیٰ یَا لَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعاً یَالَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْ یُخْرِجْکَ قَوْمُکَ ۔ (بخاری شریف ص ٣)
”یہ تو وہی راز دار فرشتہ جبرائیل ہے جسے اللہ نے موسی (علیہ السلام ) پر نازل کیا تھا۔ کاش اُس وقت نوجوان ہوتا (جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوتِ دین کا ظہور ہو گا ) کاش میں اُس وقت تک زندہ رہتا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قوم آپ کو نکال د ے گی۔”
حافظ ابنِ کثیر نے البدایہ میں بحوالہ بیہقی یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور اَقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں یہ بھی عرض کیا کہ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ جب فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ مجھے اطلاع فرما دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔ عرض کیا کہ اَب آئے تو بتلایئے گا۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے خدیجہ یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام۔ اُنہوں نے عرض کیا اِس وقت آپ کو نظر آرہے ہیں ؟ فرمایا ہاں ! عرض کیا آپ اُٹھ کر میری داہنی طرف بیٹھ جائیں ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منظور فرمایا اور اپنی جگہ سے ہٹ کر اُن کی داہنی طرف بیٹھ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا اِس وقت بھی آپ کو جبرائیل نظر آرہے ہیں ؟ فرمایا ہاں نظر آرہے ہیں ۔ عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری گود میں بیٹھ جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا ہی کیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُن کی گود میں بیٹھ گئے تو دریافت کیا۔ کیا اَب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام نظر آرہے ہیں ؟ فرمایا ہاں نظر آرہے ہیں ۔اِس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا دوپٹہ ہٹا کر سرکھولا اور دریافت کیا ۔ کیا آپ اَب بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام نظر آرہے ہیں ؟ فرمایا اَب تو نظر نہیں آتے یہ سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یقین جانیے یہ فرشتہ ہی ہے۔ آپ ثابت قدم رہیں اور نبوت کی خوشخبری قبول فرمائیں (اگر یہ شیطان ہوتا تو میرا سردیکھ کر غائب نہ ہو جاتا چونکہ فرشتہ ہی ہے اِس لیے شرما گیا)۔
اِس واقعہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی کا پتہ چلتا ہے۔ نبوت مل جانے کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِسلام کی دعوت دینی شرع کی تو مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دُشمن ہو گئے اور طرح طرح سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ستانا شروع کر دیا،ساری قوم آپ کی دشمن اور عزیزو اَقربا بھی مخالف۔ایسے مصیبت کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غم خوار صرف آپ کے چچا ابو طالب اور اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ حافظ ابن کثیر البدایہ میں لکھتے ہیں
وَکَانَتْ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَصَدَّقَتْ بِمَا جَآئَ مِنْہُ فَخَفَّفَ اللّٰہُ بِذَالِکَ عَنْ رَّسُوْلِہ لَا یَسْمَعُ شَیْئاً یَکْرَھُہ مِنْ رَدٍّ عَلَیْہِ وَتَکْذِیْبٍ لَّہ فَیَحْزِنُہ ذٰلِکَ اِلَّا فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ اِذَا رَجَعَ اِلَیْھَا تُثَبِّتُہ وَتُخَفِّفُ عَنْہُ وَتُصَدِّقُہ وَ تُھَوِّنُ عَلَیْہِ اَمْرَالنَّاسِ ۔
”حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اللہ اوررسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کی تصدیق کر نے والی تھیں ۔ اُن کے اسلام قبول کرنے سے اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مصیبت ہلکی کر دی (جس کی تفصیل یہ ہے) کہ جب دعوتِ اسلام دینے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اُلٹا جواب دیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھٹلایا جاتا تو اِس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رنج پہنچتا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اِس رنج کو دُور فرما دیتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر میں تشریف لاتے تو وہ آپ کی ہمت مضبوط کر دیتی تھیں اور رنج ہلکا کر دیتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق بھی کرتیں اور لوگوں کی مخالفت کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے بے جان بنا کر بیان کرتی تھیں ۔”
سیرت ابنِ ہشام میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے متعلق لکھا ہے
وَکَانَتْ لَہ وَزِیْر صِدْق عَلَی الْاِسْلَامِ
”حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہااِسلام کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے مخلص وزیر کی حیثیت رکھتی تھیں ۔”
ہر وہ مصیبت جو حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دعوتِ اسلام میں پیش آتی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پوری طرح اُس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریکِ غم ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ خود بھی تکلیفیں سہتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہمت بندھا نے اور بلند ہمتی کے ساتھ ہر آڑے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دینے میں اِن کو خاص فضیلت حاصل ہے۔
شعبِ ابی طالب میں رہنا
ایک مرتبہ مشرکینِ مکہ نے آپس میں یہ معاہدہ کیا کہ سارے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا بائیکاٹ کیا جائے۔ نہ اُن کو کوئی شخص اپنے پاس بیٹھنے دے، نہ اُن سے بات کرے، نہ خرید و فروخت کرے، نہ اُن کو اپنے گھر آنے دے اور اُس وقت تک صلح نہ کی جائے جب تک یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے ہمارے حوالہ نہ کر دیں ۔ یہ معاہدہ زبانی باتوں ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ تحریری معاہدہ لکھ کر کعبہ محترمہ پر لٹکا دیا گیا تاکہ ہر شخص اِس کا احترام کرے۔
اِس معاہدہ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سارے بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب تین سال تک دو پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی میں رہے۔اِس تین برس میں اُن کو فاقوں پر فاقے گزرے ۔ مرد و عورت سب ہی بھوک سے بیتاب ہو کر روتے اور چیختے چلاتے تھے جس کی وجہ سے اُن کے والدین کو اور بھی زیادہ دُکھ ہوتا تھا۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَولاد سب ہی اِس گھاٹی میں رہے اور دعوتِ دین کے لیے فاقے جھیلے اور مصیبت کے دِن کاٹے۔ آخر تین سال کے بعد معاہدہ والی تحریر کو دِیمک کھا گئی تب اُن حضرات کو اُس گھاٹی سے نکلنا نصیب ہوا۔ (البدایہ )
اِسلام کے فروغ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال بھی لگا
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت گزاری اور دِلداری میں بھی کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اپنے مال کو بھی اِسلام اور دَاعی اِسلام کی ضروریات کے لیے اِس طرح پیش کر دیا تھا جیسے اُس مال میں خود کو مالکیت کا حق ہی نہیں رہا۔ قرآن مجید میں اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خطاب فرمایا ہے : وَوَجَدَکَ عَآئِلاً فَاَغْنیٰ اور تم کو اللہ نے بے مال والا پایا پس غنی کر دیا۔اِس کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں : ای بمال خدیجة یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کے ذریعہ غنی کر دیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو مال تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کا سمجھتی تھیں اُن کے مال خرچ کرنے کے احسان کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دِل پر بہت اثر تھا۔ ایک مرتبہ اُن کے اِس اِحسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وَاَعْطَتْنِیْ مَالَھَا فَاَنْفَقْتُہ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی اُنہوں نے اپنا مال مجھے دیا جسے میں نے اللہ کے راہ میں خرچ کیا۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مکّہ میں فروخت کیے جا رہے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اِن کو اپنے مال سے خرید کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِن کو آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی سابقینِ اوّلین میں سے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے ہیں ۔ اُن کو غلامی سے چھڑا کر اِسلام کے کاموں میں لگا دینے کا ذریعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی بنیں ۔
١ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب میں جو لوگ کافر تھے وہ بھی حمیتِ قومی کی وجہ سے اس مصیبت میں شریک ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے حوالے کر دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔
نماز پڑھنا
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں پنج وقتہ نمازیں فرض نہ ہوئی تھیں اِن کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج ہوئی تب یہ نمازیں فرض ہوئیں، البتہ مطلق نماز پڑھنا ضروری تھا جسے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں ۔ حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ جب مطلق نماز فرض ہوئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور ایک جگہ اپنی اَیڑی ماری جس سے چشمہ اُبل نکلا۔ پھر دونوں نے اِس میں وضو کیا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دو رَکعتیں پڑھیں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے وضو اور نمازسیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دولت کدہ پر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ پکڑ کر اُس چشمہ پر لے گئے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرح اُن کے سامنے وضو کیا اور دو رَکعت پڑھیں ۔ اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پوشیدہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ (البدایہ)
عفیف کندی کا بیان ہے کہ میں حج کے موقع پر عباس بن عبد المطلب کے پاس آیا۔ وہ تاجر آدمی تھے مجھے اُن سے خرید و فروخت کا معاملہ کرنا تھا اچانک نظر پڑی کہ ایک شخص ایک خیمہ سے نکل کر کعبہ کے سامنے نماز پڑھنے لگا۔ پھر ایک عورت نکلی اور اُن کے پاس آئی وہ بھی (اُن کے پاس ) نماز پڑھنے لگی اور ایک لڑکا بھی نکل کر آیا وہ بھی (اُن کے پاس )نماز پڑھنے لگا۔ یہ ماجرہ دیکھ کر میں نے کہا اے عباس! یہ کونسا دین ہے ؟ ہم تو آج تک اِس سے واقف نہیں ہیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا (جو اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) یہ نوجوان محمد بن عبداللہ ہے جو دعوی کرتا ہے کہ خدا نے اِسے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور یہ کہتا ہے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے اِس کے ہاتھوں فتح ہوں گے اور یہ عورت اُس کی بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا بنتِ خویلد ہے جو اِس پر ایمان لا چکی ہے اور یہ لڑکا اِس نوجوان کا چچیرا بھائی ہے علی بن ابی طالب ہے جو اِس پر ایمان لا چکا ہے۔ عفیف کہتے ہیں کاش میں اُسی روز مسلمان ہو جاتا تو (بالغ مسلمانوں میں ) دُوسرا مسلمان شمار ہوتا۔(البدایہ)
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اَولاد
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَولاد صرف اِن ہی سے پیدا ہوئی اور کسی بیوی سے اَولاد ہوئی ہی نہیں ۔ صرف ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ مؤرخین اور محدثین کا اِس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار لڑکیاں ہوئیں اور اکثر کی تحقیق یہ ہے کہ اُن میں سب سے بڑی حضرت زینب پھر حضرت رُقیہ حضرت اُم کلثوم پھر حضرت فاطمہ زہرا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہن تھیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لڑکے کتنے تھے؟ اِس میں اِختلاف ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب بچپن ہی میں وفات پا گئے اور عرب میں اُس زمانہ میں تاریخ کا خاص اہتمام نہ تھا۔ اِس لیے یہ اَمر پوری طرح ایسا محفوظ نہ رہ سکا جس میں اِختلاف نہ ہوتا۔اکثر علماء کی تحقیق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین صاحبزادے پیدا ہوئے۔ دو صاحبزادے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے اور ایک صاحبزادے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے۔ اِس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چھ اَولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئیں، دو لڑکے اور چار لڑکیاں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جو دو لڑکے پیدا ہوئے اُن میں سب سے پہلے حضرت قاسم رضی اللہ عنہ تھے۔ اِن ہی کے نام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کنیت ”ابوالقاسم” مشہور ہوئی۔ یہ نبوت سے پہلے مکہ ہی میں پیدا ہوئے اَور وہیں انتقال ہوا۔ اُس وقت پاؤں چلنے لگے تھے، ڈیڑھ دوسال زندہ رہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دُوسرے صاحبزادے جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے اُن کا نام عبد اللہ تھا۔ اُنہوں نے بھی بہت کم عمر پائی اور بچپن ہی میں وفات پا گئے، اِن کی پیدائش نبوت کے بعد ہوئی تھی اِس لیے اُن کا لقب ”طیب” بھی پڑا اور” طاہر” بھی(دونوں کے معنی پاکیزہ کے ہیں )۔
فضائل
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پاکیزگی ٔاخلاق کی وجہ سے اِسلام سے پہلے ہی ”طاہرہ” کے لقب سے مشہور تھیں پھر حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نکاح میں آ کر اُنہوں نے جو اپنی دانشمندی و عقلمندی اور خدمت گزاری سے جو فضائل حاصل کیے ہیں اُن کا تو کہنا ہی کیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی بیوی پر بھی مجھے اِتنا رَشک نہیں جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آتا تھا حالانکہ میں نے اُن کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ اِس رَشک کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُن کو اکثر یاد فرمایا کرتے تھے۔ اور اکثر یہ بھی ہوتا کہ آپ بکری ذبح فرماتے تو اُس میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو تلاش کر کے گوشت بھجواتے تھے،ایسے موقع پر بعض مرتبہ میں نے کہا کہ آپ کو اُن کا ایسا خیال ہے جیسے دُنیا و آخرت میں اُن کے علاوہ آپ کی اور کوئی بیوی ہی نہیں ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا۔ وہ ایسی اچھی تھیں ایسی اچھی تھیں اور اُن سے میری اَولاد ہوئی۔ سبحان اللہ وفاداری اور یاد گاری کی یہ مثال کہاں ملے گی کہ صاحبِ محبت کے وفات پا جانے پر اُس کے دوستوں سے وہ برتاؤ رکھا جائے جسے وہ خود زِندگی میں اپنے دوستوں سے رکھتا اور اُس پر خوش ہوتا۔
ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کھانا ١ اور سالن لے کر جا رہی تھیں ۔ ابھی پہنچنے بھی نہ پا ئی تھیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور عرض کیا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آ رہی ہیں وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو اُن کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے اور اُن کو جنت کا ایسا مکان مل جانے کی خوشخبری سنا دیجئے جو موتیوں کا ہو گا جس میں نہ ذرا شور و شغب ہو گا نہ ذرا تکلیف ہو گی۔ ٢
جنت میں خلافِ طبع اور مکروہ آواز تو کسی کے کان میں بھی نہ آئے گی مگر خصوصیت کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جو ایسے مکان کی بشارت دی گئی یہ غالباً اِس لیے کہ دشمنانِ اِسلام اور داعی ٔاِسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف جو طرح طرح کی باتیں کرتے تھے وہ اُن کے کانوں میں پڑتی تھیں اُن کی وجہ سے جو سخت کوفت ہوتی تھی اُس کی وجہ سے تسلی دینے کے لیے یہ خصوصی بشارت دی گئی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں (الاصابہ)۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ر ضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر میں تشریف لا کر گھر سے باہر نہیں جایا کرتے تھے جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ نہ فرما لیتے تھے۔ ایک مرتبہ(لمعات میں لکھا ہے کہ )یہ کھانا حضرت خدیجہ غارِ حرا میں لے جا رہی تھیں اور یہ نبوت مل جانے کے بعد کی بات ہے کیونکہ نبوت مل جانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غارِ حرا میں آنا جانا رہا ہے ۔ ٢ بخاری ومسلم، الاستیعاب میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اُس کے رب کا سلام پہنچا دیجئے چنانچہ آپ نے پہنچا دیا۔ اُس کے جواب میں حضرت خدیجہ نے کہا اَللّٰہُ السَّلَامُ وَمِنْہُ السَّلَامُ وَعَلیٰ جِبْرِیْلَ السَّلَامُ یعنی اللہ کے سلام کا جواب کیا دُوں وہ تو خود سلام ہے اور اُسی سے سلامتی ملتی ہے۔ سلام لانے ولے جبرائیل علیہ السلام پر سلام ہو )
جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کا ذکر فرمایا تو مجھے عورتوں والی غیرت سوار ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ ایک بڑھیا کو آپ یاد کرتے ہیں تو آپ بہت ناراض ہوئے۔اِس کے بعد میں نے یہ طے کر لیا کہ کبھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو برائی سے یاد نہ کروں گی (الاصابہ ) ۔ جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا۔ اُن کی وفات کے بعد حضرت سودہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے نکاح ہوا۔
وفات
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ١٠ نبوی میں بماہِ رمضان المبارک مکہ میں وفات پائی۔ اُس وقت اُن کی عمر ٦٥ سال تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت میں کم و بیش ٢٥ سال رہیں ۔ ١٥ سال آپ کی نبوت سے پہلے اور دس برس نبوت مل جانے کے بعد، جس وقت اُن کی وفات ہوئی نمازِ جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، کفن دے کر حَجُوْن میں دفن کر دی گئیں جسے اَب” جَنَّتُ الْمُعَلّیٰ” کہتے ہیں ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَاَرْضَاھَا
٭٭٭
ماخذ: ماہنامہ انوار مدینہ لاہور