آدھا چاند فلک پر دیکھا، آدھا جھیل کے پانی میں
کندن رات ملی تھی ہم کو وہ بھی کس ارزانی میں
باقی عمر سزا میں کائی اور تاوان میں خواب دیے
خواہش کی زنجیر کو کھینچا تھا ہم نے نادانی میں
جھیل کنارے کچا رستہ، کس گاوں کو جاتا ہے؟
دو کردار وہاں تک آئے چل کر ایک کہانی میں
ناشکرے انسان کی فطرت سے وہ خود بھی واقف ہے
ہر مشکل میں اسے پکارے ،بھولے ہر آسانی میں
غیر مردف غزلیں ہم کو شاذیہ پھیکی لگتی ہیں
ہوں مترنم تو بھاتے ہیں مصرعے خوب روانی میں
شازیہ اکبر