اپنی تنہائی پہ مر جانا پڑا
راہ میں کیسا یہ ویرانہ پڑا
کس طرف سے آئی تھی تیری صدا
ہر طرف تکنا پڑا، جانا پڑا
زندگی ہے، شورشیں ہی شورشیں
خود کو اکثر ڈھونڈ کر لانا پڑا
تیری رحمت سے ہوئے سب میرے کام
شکر ہے دامن نہ پھیلانا پڑا
کوئی دل کی بات کیا کہنے لگے
اپنا اک اک لفظ دہرانا پڑا
راستے میں اس قدر تھے حادثات
ہر قدم پھر دل کو سمجھانا پڑا
زندگی جیسے اسی کا نام ہے
اس طرح دھوکا کبھی کھانا پڑا
ہے کلی بے تاب کھلنے کے لئے
اور اگر کھلتے ہی مرجھانا پڑا
زندگی کا راز پانے کے لئے
زندگی کی راہ میں آنا پڑا
راستے سے اس قدر تھے بے خبر
مل گیا جو اس کو ٹھہرانا پڑا
دوستوں کی بے رُخی باقیؔ نہ پوچھ
دشمنوں میں دل کو بہلانا پڑا
باقی صدیقی