ہماری غلامی اور اقبال کی تنبیہ
میرے مشاہدے اور فکر کی روشنی میں
جب میں موئن جو دڑو ہائی اسکول میں پڑھتا تھا (1993-1998) تو اکثر مغربی ممالک کے سیاح اور دیگر ملکوں کے لوگ وہاں گھومنے آتے تھے۔ کبھی کبھی وہ ہمارے اسکول کا بھی دورہ کرتے تھے۔ ہم ان غیر ملکی افراد کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتے اور ان سے انسپائریشن لیتے تھے۔ اس وقت تقریباً ہر پاکستانی کا خواب ہوتا تھا کہ وہ بھی بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرے یا نوکری کرے۔ میں نے بھی یہ خواب دیکھا، مگر نصیب نے ساتھ نہ دیا یا پھر حالات ایسے تھے کہ جا نہ سکا۔
میں نے سول میں ڈپلومہ حاصل کیا اور سول انجینئرنگ کے شعبے میں قدم رکھا، وقت آگے بڑھتا رہا۔ 2011 میں، جب ہماری کمپنی کو ایک پروجیکٹ ملا، تو مجھے بطور کنسلٹنٹ سرویئر کام کرنے کا موقع ملا۔ ہماری کمپنی کا جوائنٹ وینچر یو کے کی کیمبرج کمپنی کے ساتھ تھا، جس کی وجہ سے مجھے کئی برطانوی انجینئرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
پروجیکٹ میں چینی کنٹریکٹرز بھی شامل تھے۔ اب میں سکھر بیراج پروجیکٹ پر کام کر رہا ہوں، جو میرا بیرونی کمپنیوں کے ساتھ پانچواں پروجیکٹ ہے، جہاں چینی کنٹریکٹر اور کیمبرج کے انجینئرز ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس دوران میں نے گہرا مشاہدہ کیا کہ ہمارے ملک میں ان سے زیادہ قابل انجینئرز موجود ہیں، اور یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، لیکن وسائل کی کمی، نظام کی خرابی اور میرٹ کے فقدان کی وجہ سے کئی انجینئرز ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا رہے ہیں۔
اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا:
"دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا”
(اے مغرب کے رہنے والو! خدا کی دنیا کوئی بازار نہیں، جسے تم خالص سمجھ رہے ہو، وہ اب کم قیمت کا سونا ہوگا۔)
اُس وقت تک میں نے علامہ اقبال کی شاعری نہیں پڑھی تھی، لیکن 2021 میں جب میں جامشورو پاور پلانٹ پروجیکٹ پر تھا، تب میں نے اقبال کو پڑھنا شروع کیا۔ اُس دوران میں نے اقبال کی سات کتابیں پڑھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اقبال کبھی مغرب سے متاثر نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے ہمیں مغرب سے متاثر ہونے کی تلقین کی۔ کیونکہ اقبال خود مغرب میں تعلیم حاصل کر چکا تھا اور اُس نے مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھ کر اس کی گمراہی کو سمجھ لیا تھا۔
اقبال نے کہا تھا:
"جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دین سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی”
(چاہے بادشاہی حکومت ہو یا جمہوری تماشا، اگر دین سیاست سے جدا ہو جائے تو صرف ظلم اور وحشت باقی رہ جاتی ہے۔)
میں برسوں تک سوچتا رہا کہ اقبال نے بینکنگ نظام کی مخالفت کیوں کی؟ آج، 2025 میں، جب پوری دنیا ڈیجیٹل کرنسی کی غلامی میں آ چکی ہے، تو مجھے اس کا جواب مل گیا۔
آج کل پوری دنیا میں ڈیجیٹل کرنسی کا راج ہے، تمام اکاؤنٹس ایپلی کیشنز کے ذریعے چل رہے ہیں۔ اگر کسی کا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے یا اس کا OTP یا PIN کسی کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے لاکھوں، کروڑوں روپے، جو اس کے اکاؤنٹ میں موجود ہیں، چند منٹوں میں غائب ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ پوری دنیا اب کنٹرول میں آ چکی ہے۔
ہماری تنخواہیں بھی اب ایپلی کیشنز کے ذریعے آتی ہیں، ہم وہ رقم منتقل کرتے ہیں، لیکن ہم اپنے پیسوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتے، بس ایپس کے ذریعے خرچ کر دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ٹیکنالوجی جہاں بہت سے فوائد رکھتی ہے، وہیں کچھ نقصانات بھی پہنچا رہی ہے، کیونکہ کوئی بھی ٹیکنالوجی خود بخود غلط نہیں ہوتی، بلکہ اگر اسے کنٹرول کرنے والے ہاتھ غلط ہوں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ایک بڑی تنظیم، جو دجالی نظام کا حصہ ہے، اس ٹیکنالوجی کو اپنی حکومت قائم کرنے اور دنیا کو غلام بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اقبال نے اسی خطرے کے بارے میں خبردار کیا تھا:
"یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہراؑ”
(یہی شیخِ حرم ہے جو ابوذر کی چادر، اویس قرنی کا لباس اور حضرت زہراؑ کا پردہ چرا کر بیچ دیتا ہے۔)
یہ نظام پوری دنیا کو مالی غلامی میں جکڑ چکا ہے۔
آج کے جدید مالی نظام کو دیکھا جائے تو بینکوں کا راج، نئی سرمایہ کاری اسکیمیں اور معاشی جال ہمیں غلام بنا رہے ہیں۔ حال ہی میں NFT نامی ایک اسکیم بہت مشہور ہوئی، جس میں دنیا بھر کے لوگ شامل ہو گئے، اور میرے گاؤں کے کئی لوگ بھی اس میں پیسے لگا چکے ہیں۔ ابھی خبریں آ رہی ہیں کہ یہ اسکیم بند ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی اسکیمیں آئی تھیں، جیسے B4U، جس میں لوگوں کے پیسے ڈوب گئے تھے۔
اقبال نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا:
"تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا”
(تمہاری تہذیب اپنے ہی خنجر سے اپنی موت آپ مرے گی، جو نازک شاخ پر آشیانہ بنائے گا، وہ کبھی قائم نہ رہ سکے گا۔)
اسی طرح، 2020 میں، جب فرانس میں نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخ خاکے بنائے گئے، میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کچھ ہولوکاسٹ کی تصاویر شیئر کیں، اور سیکنڈوں میں میرا اکاؤنٹ بلاک کر دیا گیا۔ لیکن جب اسلام یا ہمارے محبوب نبی ﷺ کے خلاف بات ہوتی ہے، تو کسی کا اکاؤنٹ بلاک نہیں ہوتا۔
اقبال نے کہا تھا:
"ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات”
(کمزوری کا جرم، اچانک موت کی سزا ہے۔)
ہم آج مغربی نظام کی غلامی میں پھنس چکے ہیں، جیسا کہ علامہ اقبال نے سو سال پہلے خبردار کیا تھا۔ اب ہمیں جاگنا ہوگا، ورنہ ہماری اگلی نسلیں مکمل غلام بن جائیں گی، اور اسلام کو ایک بڑا خطرہ لاحق ہوگا۔
اقبال نے ہمیں یہی درس دیا تھا:
"نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں”
(تیرا آشیانہ سلطان کے محل کے گنبد پر نہیں، تو شاہین ہے، پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کر۔)
یہ دین ہمیں بہت بڑی قربانیوں کے بعد ملا ہے، امام علیؑ کی شہادت سے لے کر امام حسینؑ کی قربانی تک، لیکن پھر بھی ہم نہیں سمجھ رہے۔ ہمیں اقبال کے پیغام کو دوبارہ سمجھنا ہوگا، کیونکہ یہی ہماری آزادی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں، ہمارے دین اور ہماری شناخت کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
"اگر ہم آج بھی غلامی کی زنجیروں کو نہ توڑیں، تو تاریخ ہمیں بھی اسی صف میں کھڑا کر دے گی، جہاں بے بس، لاچار اور بے حس قومیں دفن ہیں۔ کیا ہم اپنی آنے والی نسل کے لیے بھی غلامی کی وراثت چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟”
انور علی