- Advertisement -

اردو ادب پر سوشل میڈیا کے مثبت اثرات

ساجد حمید کا ایک کالم

قرون اولیٰ سے لے کر آج تک ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ابلاغ کے بے شمار ذرائع نظر آتے ہیں جو ادب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ کبھی یہ پتھروں پر تحریر ہوا، تو کبھی مجسموں کی شکل میں ظاہر ہوا، کبھی اس نے نقاشی اور مصوری کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بنایا تو کبھی پرفارمنگ آرٹ کے ذریعہ اس کی پذیرائی ہوئی۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک ادب کے فروغ کے لیے میڈیا اپنا اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔

 

برصغیر پاک و ہند میں اردو ادب کی ابتداء چودھویں صدی عیسوی میں” امیر خسرو ” اور صوفی بزرگ ” خواجہ گیسو دراز ” سے ہوئی، جنہوں نے اردو ادب کو فارسی آمیزش کے ساتھ متعارف کرایا۔ اردو دکن سے ہوتی ہوئی ولی دکنی کے ذریعہ دہلی کے ادبی حلقوں میں روشناس ہوئی۔ دہلی کے شعراء اور ادباء اس نئی زبان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسے تحریر کا ذریعہ بناتے ہوئے” ریختہ ” کا نام دیا۔ ادب کے ابلاغ میں نمایاں اضافہ اٹھارویں صدی کے شروع میں ہوا جب خواجہ میر درد، میر تقی میر، خواجہ حیدر علی آتش اور محمد رفیع سودا جیسی ادبی ہستیوں کا کلام منظرعام پر آیا۔

 

انیسویں صدی میں میر ببر علی انیس اور دبیر نے اردو ادب میں مرثیہ کو رواج دیا۔ اسی صدی میں اردو ادب کے ابلاغ میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا جب اکثر ادیبوں اور شاعروں کی تصانیف کو فورٹ ولیم کالج کلکتہ نے شائع کیا۔ جبکہ اردو جرائد اور اخبارات نے محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، اختر شیرانی، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، قرۃ العین حیدر، ابراہیم جلیس، احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین کی تخلیقات شائع کر کے ادب کو حقیقت پسندی کا رنگ دیا اور ان کی تخلیقات کو عوام الناس تک پہنچا کر عام لوگوں کو بھی ادب سے روشناس کرایا، مگر بعد میں ہونے والی ایجادوں نے تو گویا سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ یعنی فلم، ٹیپ ریکارڈر، ٹیلی ویژن، وی سی آر، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سی ڈیز اور ای میل نے تو ادبی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اسی طرح بیسویں صدی میں ادب کو پروان چڑھانے میں” ٹی ہاؤس ” اور ” کافی ہاؤس ” کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ مگر پھر کافی ہاؤس کلچر کافی حد تک کم ہو گیا اور اس کی جگہ انٹرنیٹ کیفے نے لے لی۔

 

انٹرنیٹ کیفے کے بعد ہم ایک قدم اور آگے بڑھا کر ابلاغ کے جدید دور میں داخل ہو گئے ہیں جسے عرف عام میں ” انفارمیشن ٹیکنالوجی ” کہا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ آج ادیبوں کو باہم مل بیٹھنے کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر طے کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ہی ڈاک کے ذریعے خطوط اور مراسلے روانہ کرنے کی حاجت اور نہ ہی جرائد اور کتب کی عدم دستیابی کا مسئلہ باقی رہا ہے۔ آج آپ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، ایک ہی وقت میں لاکھوں لوگوں کے ساتھ اپنی تخلیقات کا تبادلہ کر سکتے ہیں اور ان کے تجزیے اور تبصروں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

 

ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ ادبی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا ہے، لیکن وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ادبی تخلیقات نہیں لکھ پاتے ہیں اور اگر لکھ بھی لیں تو انھیں اس کی طباعت کے لیے مالی دشواریوں اور وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس طرح ان کی صلاحیتیں ان کے ساتھ ہی قبر میں چلی جاتی ہیں، لیکن دور حاضر میں ایسے لوگوں کے لیے ایک خوبصورت موقع سوشل میڈیا کی صورت میں واقع ہوا ہے۔ جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تخلیقات با آسانی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں اور ایک دنیا ان کی علمی کاوش اور صالح خیالات سے مستفید ہو جاتی ہے۔

 

ہمارے اطراف میں کئی ایسے نامور لکھنے والے موجود ہیں جنھوں نے پہلے پہل سوشل میڈیا کو ہی اپنا میدان بنایا اور ان کی صلاحیتوں سے دنیا واقف ہوئی۔ آج ان کا شمار نامور لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ بقول اقبال:

 

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

 

اسی طرح وہ حضرات جو متلاشی علم ہیں اور جنھیں پہلے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے کتب خانوں کا چکر لگانا پڑتا تھا اور بسا اوقات بہت سی مطلوبہ کتابوں سے محرومی ہوا کرتی تھی، اب ایسے لوگ سوشل میڈیا کے وساطت سے ملک و عالم کے بڑے بڑے کتب خانوں تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور بروقت من پسند کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو علمی افادہ و استفادہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ باطل خیالات و تصورات جن کو ملک و معاشرے کے شرپسند عناصر پھیلا کر عدم رواداری کا ماحول بناتے ہیں، ان کا تعاقب و دفاع بھی سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔

 

سوشل میڈیا ہماری زندگی میں جس تیزی سے داخل ہوا ہے، اس میں سب سے پہلے فیس بک کا نام آتا ہے۔ فیس بک کے ذریعے رابطہ کرنا، اپنے خیالات اور پیغامات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا، نت نئے دوست بنانا، گپ شپ کرنا کسی بھی خطے میں موجود کسی بھی شخص سے اب انتہائی آسان ہو چکا ہے۔ اس کےعلاوہ فیس بک کو بزنس اور ایڈورٹائزمنٹ ٹول کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب آپ بستر میں لیٹے ہی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والی کسی بھی قسم کی بات چیت میں حصہ لے سکتے ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ فیس بک آج کے دور میں سماجی اور کاروباری روابط کا عالمگیر ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ دنیا پر پرنٹ میڈیا کا راج تھا، پھر الیکٹرونک میڈیا کا دور آگیا اور اس وقت ہم سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو وقت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتی ہیں۔ بقول اقبال:

 

وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے

جو ہر نفَس سے کرے عُمرِ جاوداں پیدا

 

 

ہمارے ملک کی % 85 آبادی نوجوانوں کی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ خواب دیکھتا ہے اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی سعی بھی کرتا ہے۔ سوشل میڈیا ان نوجوانوں کو خواب دکھانے سے لے کر انہیں سنوارنے، نکھارنے اور ان کے خوابوں کو تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے ملک کے ان دور دراز علاقوں میں جہاں آمد و رفت کے ذرائع مسدود ہونے کے سبب اخبار، میگزین اور رسالے نہیں پہنچ پاتے ہیں، میڈیا وہاں ان کی تشنگی دور کرنے کے لیے انھیں آن لائن اخبارات اور رسائل کا مطالعہ کرا رہا ہے اور دنیا کے حالات سے باخبر رکھ رہا ہے۔ اس وقت نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد سوشل میڈیا کی طاقت کو استعمال کرکے ظلم، برائی اور نا انصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔

 

قصور میں پیش آنے والا زینب کیس جس میں بالآخر مجرم کو پھانسی دے دی گئی، محض سوشل میڈیا کی طاقت کے ذریعے ہی یہ ممکن ہوسکا۔ ایسے اور کئی واقعات ہیں جو سوشل میڈیا کی وجہ سے منظرعام پر آئے۔ وہ خبریں جن پرکبھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی اجارہ داری ہوتی تھی اور وہ معاملات جن پر بند کمروں میں بیٹھ کر مک مکا کر لیا جاتا تھا، اب انہیں چھپانا ممکن نہیں رہا۔ اس صورتحال کو معروف کالم نگار ” جناب اوریا مقبول جان ” نے اپنے ایک کالم میں بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

” کمپیوٹر پر بیٹھا ہوا نوجوان آپ کی کروڑوں روپے کی لاگت سے بنائی گئی میڈیا ایمپائرز کا مقابلہ کر رہا ہے، بلکہ اب تو جیت اس کا مقدر ہونے لگی ہے۔ اس سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ جن کو ہے ان کے منھ سے روز جھاگ نکلتی ہے اور وہ غصے سے کھولتے پھر رہے ہیں، وہ جنہیں اس بات کا زعم تھا کہ ہم ہواؤں کا رخ بدل سکتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں تک پرنٹ میڈیا کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے والوں کی حالت دیکھنے والی ہے اور اب کنٹرول ہر اس شخص کے پاس ہے جو چھوٹے سے کمرے میں بوسیدہ کمپیوٹر پر بیٹھا ہے اور جو بساط الٹ سکتا ہے اور اس نے بساط الٹ کر رکھ دی ہے۔ “

 

محترم اوریا مقبول جان کے ان الفاظ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کی کیا اہمیت ہے۔ میری چھٹی حس مجھے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ جب بچوں کو اسکولوں میں پڑھایا جائے گا کہ سوشل میڈیا کا استعمال کیسے کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا سے ہم وہ سب کچھ سیکھ سکتے ہیں جو حکیم لقمان جیسے عظیم دانشور نے لوگوں سے سیکھا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ ” آپ نے ادب کہاں سے سیکھا؟ ” حکیم لقمان نے جواب دیا: ” میں نے ادب بےادبوں سے سیکھا ہے، ان کا جو فعل مجھے برا محسوس ہوا میں نے اس کے کرنے سے پرہیز کیا ہے۔ ” ہم دن بھر کتنی چیزیں اور رویے ایسے دیکھتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے یا برے لگتے ہیں، بس تو پھر سوشل میڈیا پر بھی ان سب سے بچنا لازم ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ جلد از جلد یہ طے کر لیا جائے کہ سوشل میڈیا سے متعلق معلومات کو تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے تا کہ بچوں کو علم ہو کہ سوشل میڈیا سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے اور نقصانات سے کس طرح محفوظ رہا جائے۔

 

آئندہ دنوں میں سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہو گا جسے ہم سب کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ کیونکہ جس طرح گزشتہ سالوں میں ” سیلفی ” جیسا نیا لفظ سامنے آیا ہے، اس طرح آئندہ چند سالوں میں کئی نئے الفاظ انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی داخل ہوں گے اور آپ ان نئے الفاظ کا سوشل میڈیا پر جیسا استعمال کریں گے، اردو کے ارتقائی عمل کی سمت ویسی ہی متعین ہوگی۔ اس لیے مستقبل قریب میں سوشل میڈیا پر اردو ادب بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ رابطے کا ٹول ہے۔

 

اردو ادب کے مستقبل کے حوالے سے جو خدشات ہیں، وہ جلد ہی چھٹ جائیں گے۔ کیونکہ اب اس کی بقا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم جس طرح اردو ادب کو استعمال کریں گے، اس کی راہ ویسے ہی متعین ہوگی۔ ادب میں سوشل میڈیا نے نہ صرف ذہنی بلکہ مالی و معاشی اعتبار سے بھی بڑے مثبت اثرات منتقل کیے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر ہینڈ سم پیسے صحافیوں کو معاشی و ذہنی طور پر پرسکون رکھتے ہیں۔ معمولی تنخواہوں پر ملازمین کو رکھنے کے بعد ان سے ” مولوی عبد الحق ” بننے کی توقع رکھنا بیکار ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ادب سنسر کی پابندی کے باعث اذیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہر اخبار کی ایک لگی لپٹی پالیسی ہوتی ہے جسے کوئی ادھر سے ادھر نہیں کر سکتا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر صحافی ” بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ” کے مصداق بلاخوف و خطر بولتا ہے۔ وہ اپنی آواز بعینہ اسی طرح پہنچاتا ہے جیسا کہ وہ پہنچانا چاہتا ہے۔

 

سوشل میڈیا نے ایک عام آدمی کو طاقت دی ہے کہ وہ اپنا پیغام دور دور تک پہنچا سکے۔

ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی ہونے کے باوجود آج ملک کے ہر اس شخص کو جس کے پاس اسمارٹ فون ہے اور جو اردو کا ایک لفظ بھی نہیں لکھ پاتے تھے، وہ آج سوشل میڈیا کی مہربانی سے رومن اور اردو رسم الخط میں لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں۔ جو لوگ اردو شاعری پڑھنے سے بھاگتے تھے وہ اب بڑے بڑے شعراء کا کلام سننے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ نوجوان نسل نے سوشل میڈیا پر ویب سائٹس کے ذریعے اردو ادب پڑھنا شروع کیا۔ پروین شاکر، احمد فراز، حبیب جالب اور دیگر ادباء و شعراء کے کلام کا وہ ذخیرہ جو وہ شاید کتاب اٹھا کر کبھی نہ پڑھ پاتے، سوشل میڈیا نے ہماری نسل کو جو شعور عطا کیا، بقول پروین شاکر:

 

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں

 

بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

 

ہماری جنریشن ڈیجیٹل عہد سے مانوس ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے وہ اب اپنی حفاظت کے لیے فکرمند ہے۔ آگاہی کا یہ در سوشل میڈیا نے ہی کھولا ہے۔ وہ زمانے گئے جب بی بی سی جیسے ادارے براڈ کاسٹر ہوا کرتے تھے، اب سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر شخص براڈ کاسٹر ہے۔ خود بی بی سی اب ریڈیو، ٹی وی اور ویب سائٹس کے بعد سوشل میڈیا کو اپنا چوتھا میدان سمجھتا ہے اور اس میدان کے لیے اس نے حکمت عملی تیار کی ہوئی ہے۔

 

ادب میں سوشل میڈیا کے مثبت یا منفی کردار کے لیے دراصل ہمیں اپنی طرز فکر میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ دنیا کی کوئی چیز کم تر یا افضل نہیں ہوتی ہے، بس اس کے برتنے کا انداز و طریقہ ہوتا ہے جو مثبت یا منفی اثرات منتقل کرتا ہے۔ ہمیں وقت کے ساتھ اب تبدیل ہونا ہوگا اور سوشل میڈیا پہ ادب کی ترویج و ترقی کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔

 

 

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

 

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

 

اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح

 

اک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا

 

 

 

ساجد حمید

ایم فل اردو

 

 

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
مقالہ از محمد حسین بہشتی