اسلام آباد کا موسم سرد ہوتے ہی گرم گرم خبریں نکلتی ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے ایک دوست نے شہرِ اقتدار سے چند مفروضے بھیجے جو درج ذیل ہیں۔۔
فرض کریں آئین لپیٹ دیا جائے اور متناسب نمائیندگی کا نظام آ جائے اور فرض کریں یہی کام کرنے کیلئے جنرل باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن ملی ہو تو۔۔۔؟
پرویزی دور سے ہی بدماشیہ 1973 کے آئین سے چھُٹکارا چاہتی تھی جسے وقتی طور پر لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے ایک کُرسی کے تابع کیا گیا۔ جونہی زرداری صاحب نے اقتدار سنبھالا تو ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ اور قومی حکومت جیسی کہانیاں مارکیٹ میں چلائی گئیں۔ زرداری صاحب نے اپنی سی کی، انہوں نے جواباً 1973 کا آئین بحال کیا اور صدر کو حاصل لامحدود اختیارات بھی پارلیمان کو واپس کر کے بدماشیہ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اسے مزید تقویت دینے کیلئے انہوں نے اٹھارویں ترمیم منظور کرا کے صوبائی خود مختاری کا دائرہ کار اتنا وسیع کیا کہ سب_کُچھ کی رسیا بدماشیہ دانت پیستی رہ گئی۔ بدماشیہ نے 2013 میں آر ٹی ایس کی مشین سے اپنا آزمودہ برآمد کیا تو وہ کینہ توز نکلا اور سابق آمر کو رگیدنے کے درپے ہو گیا لہذا فوراً ہی لاڈلے میں ہوا بھر کے اسلام آباد کی سڑکوں پر چھوڑ دیا گیا اور بالآخر 2018 میں کھُل کھیلنے کے شوق میں مری جا رہی بدماشیہ نے لاڈلے کو ملک پر مسلط کر کے مشرف کیساتھ دفن ہو چکے اقتدار کو بحال کروا لیا۔ اقتدار میں آتے ہی صدارتی نظام کے ٹیزر چھوڑ کر دیرینہ خواب کی تکمیل کیلئے رائے عامہ کو پھر سے اُستوار کیا گیا اور تازہ خبر یہ ہے کہ "بے دِلی بے سبب نہیں غالب” کے مصداق اسکی تیاریاں عروج پر ہیں۔
بیرون ملک سے معلوم تعداد میں آئینی ماہرین اسلامآباد کی ہواوں میں سانسں لے رہے ہیں اور شمالی کوریا، ایران، تُرکی، چین اور امریکہ کے نظام ہائے پر ایکسٹینسیو سٹڈی بحرحال جاری و ساری ہے اور خبر یہ ہے کہ عدلیہ، دائیں بازو کی تمام قوتیں بشمول ہینڈلرز اس تبدیلی پر مکمل آن بورڈ ہیں جو مستقبل بہت قریب میں نظام کو لپیٹ کر آئین 1973 سے جان خلاصی کروانے پر بالکل بھی معترض نہیں ہیں۔ اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی گلے کی ہڈی ہے جو بحرحال لیفٹ کی تمام قوتوں کی نمائیندہ جماعت ہونے کیساتھ ساتھ ایک صوبے پر حقِ حکمرانی کیوجہ سے دردِ سر ہے اور اسی لیئے اسکی قیادت کو بلا وجہ قید میں رکھ کر معاملات کنٹرول کیئے جا رہے ہیں۔
یہاں دو سوال اُٹھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ متناسب نمائیندگی کا نظام ہے کیا؟ دوسرا یہ کہ 1973 کا آئین رول بیک ہونے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
متناسب_نمائندگی ایک جمہوری انتخابی نظام ہے جو آسٹریا، جرمنی، سویٹزرلینڈ، شمالی یورپ، سکینڈینیویا، فرانس تُرکی اور سری لنکا سمیت 80 سے زائد ممالک میں رائج ہے۔ کچھ آئینی ماہرین کے نزدیک یہ پارلیمانی جمہورئیت کی ایک بہتر قسم ہے جس میں پورے ملک کو ایک ہی حلقہ ڈیکلیئر کر کے سیاسی نمائندوں کی بجائے ڈائریکٹ جماعتوں میں انتخابات کروائے جاتے ہیں اور حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے انہیں ایوانِ اقتدار میں نشستیں الاٹ کر دی جاتی ہیں۔ یہ کوئی لگا بندھا نظام نہیں ہے اور ہر ملک نے اپنے محلِ وقوع اور قومی مزاج کے مطابق اس میں معمولی اختراعات کر رکھی ہیں۔ اسکی تین بڑی اقسام (ا) پارٹی لِسٹ سسٹم (ب)سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ اور (ج) مکسڈ ممبر سسٹم ہیں۔ دوسری جانب تناسبی نمائیندگی کا سسٹم پاکستان، انڈیا سمیت تقریباً 50 ممالک میں رائج ہے جسے ہم بخوبی جانتے پہچانتے ہیں۔
متناسب نمائیندگی کے نظام میں مقننہ یک یا دو ایوانی ہو سکتی ہے۔ دو ایوانی مقننہ کیلئے ایونِ بالا میں پورے ملک کو ایک ہی حلقہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ چھوٹے چھوٹے صوبے تشکیل دیکر ان سے بھی پارٹی بنیادوں پر رائے شماری کروائی جاتی ہے۔ کم ازکم ووٹوں کا معیار طے کیا جاتا ہے مثال کے طور پر جو جماعت ڈالے گئے کُل ووٹوں کا 10 فیصد نہیں لیتی اسے پارلیمان میں نمائیندگی نہیں دی جاتی۔ اسی طرح جیتنے والی جماعت کو عام اکثریئت یعنی ڈالے گئے کُل ووٹوں کا 51 فیصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی بھی جماعت حتمی اکثریئت نہیں لے پاتی تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی دو جماعتوں میں دوبارہ انتخابات کروا کے حتمی فاتح کا تعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس نظام کی بات ائیر مارشل اصغر خان کی جماعت تحریکِ استقلال اور جماعت اسلامی ستر کی دہائی سے کر رہی ہیں جنکا ووٹ ملک بھر میں بکھرا ہوا ہے۔ اور اب تحریکِ انصاف بھی متناسب نمائیندگی سسٹم کی بات کرنا شروع ہو گئی ہے۔
رہ گیا 1973 کا آئین، اگر اسے معطل کیا جاتا ہے تو ایک تو موجودہ اسمبلیاں تحلیل کر کے ملک میں آئینی بحران کی سی کیفیت پیدا ہو جائے گی دوسرا سب سے پہلے قرار دادِ مقاصد سے جان خلاصی ہو گی جو کچھ لوگوں کے نزدیک ملک کے اسی فیصد مسائل کی جڑ ہے۔ اسکے ساتھ ہی وہ تمام مسائل جنہیں صوبائی لیڈران نے ملکر 1973 میں طے کیا تھا، اپنی پوری آب و تاب کیساتھ دوباری نمودار ہو جائیں گے۔ اٹھارویں ترمیم سے باضابطہ جان خلاصی تو ہو جائے گی مگر آئین معطل ہوتے ہی سیاسی کافر احمدی دوبارہ مسلمان بن جائیں گے اور تمام مذہبی سزاوں کے پیچھے موجود آئینی شیلٹر دم توڑ جائے گا۔ وہ ہزاروں مسائل جو 1973 سے لیکر آجدن تک طے پا چکے ہیں دوبارہ سر اُٹھا لیں گے۔ مثال کے طور پر ملاں سیاست کرنے والوں کو احمدیوں کو دوبارہ آئینی طور پر غیر مسلم قرار دلانے کیلئے جدوجہد کرنی پڑے گی اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس بار کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ معاملہ عدالتوں میں جاتے ہی امریکہ سمیت تمام مہذب ممالک 1973 سے لاکھ درجے زیادہ فعال جماعت احمدیہ کے ساتھ آن کھڑے ہوں گے اور انکے اشارہِ ابرُو پر امامِ کعبہ تازہ فتوی جاری کرکے تمام تکفیری گروپوں کی ہوا نکال دیگا۔ رہ گئے اہلِ سُنت مولوی تو مفروضے کے مطابق دو چار سانحہ ماڈل ٹاون انہیں زیر کرنے کیلئے کافی ہیں اور انہی گُتھیوں کو سُلجھانے کیلئے غیر ملکی اسکالرز کی ایک کھیپ سرکاری خرچے پر اسلامآباد میں سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔
جمہوریئت پسندوں کیلئے 1973 کے آئین کا رول بیک حتمی تشویش کا باعث ہے اور ہمیشہ کیطرح آج بھی گیند پیپلزپارٹی کے کورٹ میں ہے۔ مفروضے کے بقول اگر تو پیپلز پارٹی لیفٹ کی دیگر جماعتوں کو لیکر آئین کیساتھ کھڑی ہو گئی تو ملک میں غیر معینہ مدت کیلئے مارشل لاء نافذ کر کے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا اور اگر اس نے متناسب نمائیندگی کے حق میں دستبرداری کر دی تو اسکے دو فائدے ہیں۔ ایک تو یہ کہ فوج کی نگرانی میں قائم ہونے والی قومی حکومت میں اسے حصہ بقدرِ جُثہ مل جائے گا دوسرا یہ کہ ملک بھر میں وہ لوگ جو ووٹ بنک کم رہ جانے پر پارٹی سے دست بردار ہو چکے ہیں وہ بڑی تعداد میں واپس آ جائیں گے کیونکہ پھر انہیں اپنے ووٹ کے ضائع ہونے کا احتمال بالکل نہیں رہے گا۔
رہ گیا ایرانی ماڈل جس میں "رہبر کونسل” تمام آئینی اداروں سے بالا ہے تو ایسی حماقت کی توقع میں بدماشیہ سے بالکل نہیں رکھتا کیونکہ اگر تو ملاں کو رہبر کونسل بنانے کا لالی پاپ دیا گیا تو پاکستان سعودیہ ایران کی پراکسی لڑائی کا شکار ہو جائے گا اور اگر بڑی جماعتوں کی لیڈرشپ سمیت ریٹائرڈ جرنیلوں کی مشترکہ کونسل ترتیب دی گئی تو یہ آنے والے وقت میں سول وار کا بیج رکھنے کے مترادف ہوگا اور آنے والی نسلیں جرنیلوں کیساتھ حصہ دار سیاسی جماعتوں کیخلاف بھی صف بندی کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔۔ وملا علینا