آج کی نظم اور اس کے انسلاکات
ادب برائے تبدیلی - ایک پیش رفت
ہم اقداری صورتوں کے سریع تغیر سے عبارت وقت میں سامان زیست کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ لفظ ”جدید“ بھی تیزی سے اپنی قدر کھوتا محسوس ہوتا ہے۔ معنوی سطح پر یہ حرکی تغیر حیران بھی کرتا ہے اور پریشان بھی۔ ہمارے لیے ہر نئی چیز جدید ہوتی ہے اور اس جدید چیز کی موجودگی میں اس سے زیادہ جدید چیز سامنے آجاتی ہے۔ ان کے مابین وقت کا وقفہ اتنا کم ہوتا ہے کہ یہ صراحت کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ اِسے جدید کہا جائے یا اُسے۔ چناں چہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے لسانیاتی سطح پر سابقوں اور لاحقوں سے کام لیا گیا۔ لیکن کب تک؟ یہ سابقے اور لاحقے آج کماحقہ کام نہیں دیتے۔ مابعد جدید ہو یا جدید ترین، معنوی سطح پر ان کے عناصر ہمیں روایتی ادبی ورثے میں مل جاتے ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ فیض، میراجی اور ن م راشد یا مجید امجد کے بعد ہم جدید نظم کیا کہیں اور کہاں تک اسے گھسیٹیں۔ آج کی نظم‘ جدید نظم سے کچھ سوا ہے۔ متنی تضادات کا ایسا عالم ماضی میں کہیں نہیں ملتا۔ ایک ہی متن میں عناصر ایک دوسرے کو کاٹتے‘ رد کرتے چلے جاتے ہیں۔ نئی شعری حسیت نے متن کو پیچیدہ بنانے میں اساسی کردار ادا کیا ہے۔ انسانی معاشرت اساسی سطح پر زبردست تضاد کا شکار ہے اور یہ تضاد عالمگیریت کا انت ہے۔ اس انت پر سمٹاو¿ اور پھیلاو¿ بہ یک وقت وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ شعور کی اوپری سطح پر توسیع پسندی کا رجحان غالب ہے اور نچلی سطح پر یہ خوف سے سکڑ رہا ہے۔ یہ تضاد اخلاقی سطح پر تباہی پر منتج ہورہا ہے اور تخلیقی سطح پر پیچیدگیوں کا روپ دھار رہا ہے۔ قابل ذکر شاعروں کے ہاں المیہ جو اِن کے اندرون سے اٹھتا تھا اور کرب کی امیجری میں ڈھلتا تھا‘ اب ذات سے زیادہ معاشرت سے اٹھتا اور خیال کی شدت میں روپ دھارتا ہے۔ اس لیے آج کی نظم کرب انگیز سماجی بیانیہ ہے۔ شاعر کی ذات اس میں جمالیاتی سطحات پر اپنا اظہار کررہی ہے۔ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا عمل اتنی تیزی سے جاری ہے کہ شعری جمالیات کوسمجھنے اور آج کی شعری حسیت رکھنے والا نمایاں اور حقیقی شاعر اپنی ذات کے اشاریوں کو بھی سماجی علامتوں میں ڈھالنے پر مجبور ہے۔ اندرون اور بیرون کے مابین حسیاتی سطح پر یہ تضاد لامحالہ طور پر متن میں ظاہر ہورہا ہے۔ تضادکایہ متنی ظہور آج کی نظم کی بے پناہ پیچیدگی کوآشکارکررہا ہے۔ اس پیچیدگی کے چار بنیادی عناصر ہیں۔ ابہام، الجھاو¿، تہ داری اور لایعنیت۔ شاعر لاکھ کوشش کرے، لایعنیت سے جان نہیں چھڑا پاتا۔ یہ بدلتی اقدار کا وہ دباو¿ ہے جو حسی سطح پر شاعر پر اثرانداز ہورہا ہے۔ پیچیدہ خیالات، پیچیدہ نفسیات، پیچیدہ علامات، اور ان سب نے تیزی سے بدلتی اقدار سے جنم لیا ہے۔
متنی تضاد اگر شعری جمالیات کی پروردہ ہے تو یہ نظم کی ایک قدر ہے۔ لیکن اس سے جنم لینے والی متنی پیچیدگی کو اگر ہم سطحی طور پر دیکھیں گے تو ہم اسی طرح آج کی اپنی شعریات کی ناقدری، عدم پہچان اور عدم تفہیم کا رونا روتے رہیں گے۔ نظم میں انسانی جذبات و احساسات اور باطنی پیچیدگیوں کا اظہار تو ایک زمانے سے ہوتا چلا آرہا ہے لیکن ان عناصر کا آج کی شاعری کے حوالے سے مذکور ہونے کا مطلب مختلف ہے۔ کیا صرف یہی کہہ دینا کہ ہم مابعد نو گیارہ عہد میں جی رہے ہیں، تخلیق کار پر اس کے خارج کے دباو¿ کی مکمل وضاحت نہیں کرتا؟ ایسے میں وسعت نگاہ سے متصف تخلیق کار ہی اچھا نظم گو بن سکتا ہے۔ وسعت نظر رکھنے والے اس اچھے نظم گو کے ہاں اپنے عہد کی تمام تر پیچیدگی شعری جمالیات کے پردے میں ملے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ اپنے عہد کی تفہیم ہی سے کٹ جائے گا۔ تب اس کی وسعت نظری محض ایک دھوکے کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ جس پیچیدگی کا ذکر میں نے کیا ہے اس کا ہر عنصر یعنی ابہام وضاحت کو رد کرتا نظر آئے گا‘ وضاحت ابہام کا ابطال کرے گی، الجھاو¿ سلجھے مفہوم کو کاٹ رہا ہوگا اور سلجھاو¿ پر الجھاو¿ کا دھوکا ہوگا‘ تہ داری معانی کی پہلی سطح کے خلاف تشکیک پیدا کرے گی اور لفظ یا ترکیب اپنی تہ داری کو مشکوک بنائے گی‘ لایعنیت نظم کی مجموعی یا جزوی معنویت کو رد کرے گی اور معنویت لایعنیت کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے گی۔ ہر عنصر ”قطعی حیثیت“ سے نظمی متن میں موجود ہوگا۔ اس تنی رسی پر حقیقی اور بہت اچھا نظم گو ہی چل سکتا ہے۔ اس دعوے کا ثبوت آج کا عہد فراہم کر ہی رہا ہے۔ آج کے اچھے نظم گو شعرا کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے جن کے ہاں یہ عناصر اسی حیثیت سے کم و بیش کہیں نہ کہیں پائے جاتے ہیں۔ آج کی وہ نظم جو ہمارے آج کے عالمی و مقامی سماج سے جڑی ہوئی ہے‘ اس کی ایک قدر ”سفاک قطعیت“ ہے۔ الفاظ کو دیکھا جائے تو یہ ایک منفی قدر دکھائی دیتی ہے لیکن شعری جمالیات اسے جس سطح پر برتتی ہے وہ نظمی تجسیم کا ایک ایسا معاملہ ہے جو نظم نگاروں کی بالغ نظری سے تعلق رکھتا ہے۔ بالغ نظری نہ صرف روح عصر کو سمجھنے کی بلکہ شعری جمالیات کو برتنے کی بھی۔ ”تم کس طرف ہو“ اس مطالبے میں جو قطعیت ہے، اسے اگر شعری جمالیات کے دائرے میں دیکھا جائے تو کہیں گے کہ ”تم انسان ہو یا خواب ہو۔“ شاعر جب کہتا ہے کہ ”ہم خواب ہیں / بچپن کی مٹی میں گندھے۔۔۔“ تو اس اظہار کے پیچھے اس المیے کی شدت کارفرما ہوتی ہے جس نے انسان کو مجسم خواب میں تبدیل کردیا ہے۔ ماورائی المیے کے اظہار کے لیے انسان کو براہ راست بیان میں مجسم خواب بنادینا نہ صرف اپنے اندر سفاک قطعیت کا عنصر رکھتا ہے بلکہ شعری جمالیات کو حسی سطح پر سمجھنے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ”براہ راست بیان“ کا مطلب یہ ہے کہ جو لفظ استعمال کیا جارہا ہے وہ نہ تو استعارہ ہے‘ نہ تشبیہ نہ علامت۔ انسان ایک ٹھوس حقیقت ہے‘ نہ خواب اس کے لیے استعارہ ہوسکتا ہے نہ پتھر سے اسے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ پتھر کسی شقی القلب کے لیے علامت تو ہوسکتاہے لیکن پوری نوع کے لیے نہیں۔ لیکن اس کے بیرونی اور اندرونی حالات میں وہ انقلاب آیا ہے کہ وہ کہیں مجسم خواب نظرا ٓتاہے کہیں پتھر بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔آج کی نظم جب اظہار کے لیے نئے وسیلے ڈھونڈھتی ہے تو ان کی تجسیم اسی طرح کی نئی اصطلاحات کی صورت ہی میں ممکن نظرآتی ہے۔ لیکن نظم میں یہ براہ راست لسانیاتی اظہاریعنی ”صفت منقلبہ“ شعری جمالیات کی عدم موجودی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ”سفاک قطعیت“ کو شعری قدر بنانے اور ”صفت منقلبہ“ کو شعری جمالیات سے آمیزکرنے کے لیے ہر دو طرح کی بالغ نظری درکار ہے۔
”سمٹاو¿ اور پھیلاو¿“ کے نکتے پر بات سے قبل ”ودیعی انفرادی شخصیت“ پر ضمناً بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ہاں اہم معاملات پر عموماً سطحی نگاہ ڈالنے کا رجحان ہے۔ اس رجحان کے تحت یہ نکتہ زیر بحث لایا جاتا ہے کہ نئی نظم کے اجزائے ترکیبی اور خصوصیات پر بات ہونی چاہیے۔ ”اجزائے ترکیبی“ معلوم کرنے کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ پہلے تفصیلاً جانا جائے کہ ”اجزائے ترکیبی“ کے ”ماخذات“ کیا ہیں؟ یہ ”ضمنی ماخذات“ کس بنیادی ”ماخذ“ سے نکلے؟ کیا بنیادی ماخذ سماج نہیں ہے؟ مذہب اور سیاست سے لے کر فرد کے داخلی احساسات تک ‘تمام تر اس بنیادی ماخذ سے جڑے ہیں۔ اس پر یہ سوال کہ اگر بنیادی ماخذ سماج ہے تو پھر اس کے اثرات سب پر یکساں کیوں نہیں ہیں‘ دراصل فرد کی ودیعی انفرادی شخصیت سے ناواقفی کا اظہار ہے۔ ”ودیعی انفرادی شخصیت“ سماج کے تعامل سے کوئی نہ کوئی رخ اختیار کرتی ہے جو دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ شخصیت غیرسائنسی نہیں ہے۔ ہیومن جینیٹکس نے اس کی شہادتیں فراہم کی ہیں۔ ہم کلیشے عموماً غلط جگہ دہراتے ہیں یا کم از کم درست مقام پر دہرانے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ کلیشے دیکھیں: فن کار پیدائشی فن کار ہوتا ہے / فن قدرت کا عطیہ ہے، وغیرہ۔ عموماً ان بیانات کو اکہری سطح پر دیکھا جاتا ہے۔ عطیہ خداوندی دراصل فنون میں جمالیات کا شعور ہے جو عام لوگوں کے شعور سے بہت مختلف اور درجہ بندی میں بلند تر ہوتا ہے۔ لیکن سماج کے اندر اس ودیعی انفرادی شخصیت کی پرورش اور اس کے اثرات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ادبی جمالیات نے بھی ثقافتی جمالیات سے جنم لیا ہے۔ اس لیے نظم کے اجزائے ترکیبی کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ متنی خصوصیات میں انداز، مواد اور ساخت جیسے امور آتے ہیں۔ ودیعی انفرادی شخصیت جس معاشرے کی اکائی ہوتی ہے، اس کے طرز فکر‘ مجموعی نفسیات‘ شعور کی سطح اور اصول تمدن کو اپنے احساسات کے آئینے میں پرکھتے ہوئے اظہار کا سلیقہ اختیار کرتی ہے۔ فن کار پورے شعور کے ساتھ اپنے لیے فن کے اظہار کا سلیقہ چننے پر قادر ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت ایک سلیقہ بدل کر دوسرا سلیقہ اختیار کرسکتا ہے۔ اپنے اظہاری سلیقے میں تبدیلی لاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ فن کار چاہے تو اپنے ودیعی انفرادی شخصیت میں موجود شعری جمالیاتی وصف کو محض کسی عورت کے عشق اور اس کے متعلقات کے اظہار کے لیے بروئے کار لائے‘ اور چاہے تو عورت کے پیچھے موجود ایک پورے سماج کے لیے اس کے مکمل نفسیاتی دائرہ کار سمیت بروئے کار لائے۔ چناں چہ اگر کوئی شخص آج کی نظم کی خصوصیات یا اجزائے ترکیبی پر بات کرنا چاہے تو اس کے سامنے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں سوائے اپنے سماج کی نفسیات اور اس نفسیات میں موجود تضادات اور پیچیدگیوں سے اپنی ودیعی انفرادی شخصیت کے حوالے سے انسلاک۔
سمٹاو اور پھیلاو کو اگر ہم تخلیقی شعریات کے ضمن میں دیکھیں تو فہم کی توسیع کی قدر سے واسطہ پڑتا ہے۔ سماجی ابتری کی صورت حال بتاتی ہے کہ ہماری سماجی فہم شکستگی کا شکار ہوچکی ہے اور سماج ٹکڑوں میں بٹا ہواہے۔ وسیع کینوس میں‘ بنی نوع آدم کی سطح پر دیکھا جائے تو عالمی سماج مذاہب میں بٹا ہوا ہے۔ اس لیے مقامی اور عالمی دونوں سطحات پر اینٹ اینٹ سماج توسیع پسندی کی شدید خواہش سے لبریز ہے۔ لاشعور کا خوف انھیں اپنے اندر سکڑاو¿ پر مجبور کررہا ہے اور شعور کی عیاری اسے اپنے وجودی اور معنوی پھیلاو¿ کی طرف دھکیلتی ہے۔ اس تضادی نفسیات نے نہ صرف انسان کو اندر سے منہدم کیا ہے بلکہ باہر سے بھی اسے شکستہ کردیا ہے۔ اس پس منظر میں آج کے شاعر کو ہونے والا ادراک وہ واحد عنصر ہے جو اسے عمومی تخلیقی سطح سے اوپر اٹھاتا ہے۔ لیکن وہ اپنی فہم کے سلسلے میں توسیع پسندی کے اثر سے بچتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صورت حال تنی ہوئی تخلیقی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس رسی پر جس نظم نے توازن قائم رکھ کر دکھایا‘ عین ممکن ہے وہ مستقبل کا کلاسک قرار پائے۔ فہم کی توسیع ایک مثبت قدر ہے لیکن سماجی تضادی کیفیت نے جس پیچیدگی کو جنم دیا ہے‘ شعری حسیات میں وہ ایک مداخلت کار کی حیثیت سے در آتی ہے۔ بہت جگہ فہم کی توسیع کی خواہش شعری جمالیات کو بری طرح مجروح کردیتی ہے۔ توسیع پسندی کی نفسیات کے حصار میں آنا‘ اپنی پہچان اور شہرت کی توسیع کے لیے بے قرار ہونا‘ فہم کو شعریات کے ساتھ آمیز کرنے کا داعیہ کمزور ہوجانا‘ یہ سب منفی عناصر ہیں جو نظم میں یکے بعد دیگرے علامات و استعارات و تشبیہات کی صورت میں منقلب ہوتے ہیں۔ سماجی اور طبعی ماحول حتیٰ کہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی آج کے شاعر پر اثرانداز ہورہی ہیں۔ توسیع پسندی کی نفسیات نے سب سے زیادہ نقصان جس چیز کو پہنچایا ہے وہ ہے کرہ ارض کا ماحول۔ چناں چہ طاقت کے مراکز ماحولیات سے لے کر انسان اور انسانی نفسیات تک ہر چیز کو غارت کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک سطح پر یہ معاشرت کا رزمیہ ہے اور دوسری سطح پر معاشرت کا المیہ۔ آج کا نظم گو معاشرت کے اس رزمیے اور المیے کے درمیان اپنی پہچان بنانے کے لیے تگ و دو کررہا ہے۔ اس کی یہ کوششیں نظمی متن کے اندر پیچیدگیوں کو جنم دے رہی ہیں۔
شعری حسیات اگر معاشرت کی اس پیچیدگی کو جمالیاتی شعور سے آمیز کردے تو آج کی نظم کو ایک سمت مل سکتی ہے۔ لیکن اکثر نظم بے سمتی کی شکار ہے۔ ”اکثر نظم“ سے مطلب ”ساری نظم“ نہیں ہے۔ نظم کے جتنے نمایاں شاعر ہیں‘ ان کے ہاں کسی کے پاس قابل قدر تعداد میں، کسی کے پاس قابل ذکر تعداد میں اور کسی کے پاس خال خال ایسی نظم مل جاتی ہے جو بے سمتی کی علت سے محفوظ رہی ہے۔ بے سمتی کیوں در آتی ہے؟ اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے جس تضاد اور اس سے جنم لینے والی پیچیدگیوں کا ذکر کیا ہے‘ مقامی سطح پر ان کے نتیجے میں غصے اور احتجاج نے ہمارے نفسیاتی رویوں میں گھر کرلیا ہے۔ شاعر کے پاس بالخصوص نظم کے شاعر کے پاس اظہاری ٹول کی دستیابی کے باعث وہ نسبتاً زیادہ گہرائی سے ان کی لپیٹ میں آیا ہے۔ چناں چہ بہت بڑی تعداد میں نظم احتجاج اور غصے کا براہ راست اظہاریہ بن گئی ہے۔ اپنی حساسیت کے باعث وہ یکے بعد دیگرے استعاراتی و علاماتی نظام کو بروئے کار لاتا ہے لیکن شعری جمالیات کو بھول جاتا ہے۔ شعری جمالیات علاماتی نظام میں بہاو¿ کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ معنی آفرینی کو جنم دے کر تفہیم کے در وا کرتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر لایعنیت کے آگے دیوار کھڑی کرتی ہے۔ لایعنیت نے آج کی نظم میں ایک اور رجحان کو جنم دیا ہے۔ جواب سے بے زار سوال قائم کرنے کا رجحان۔ آج کی نظم زیادہ تر سوال مذہب کے بارے میں قائم کرتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ مقامی اور عالمی تخریبی قوتیں اپنے غیر منطقی وجود کی بقا کے لیے صنعت و حرفت سے لے کر سیاسی و عسکری توسیع پسندی تک مذہب کو پنچنگ بیگ بناکر ایک طرف عالمی انسانی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہیں اور دوسری طرف حصول زر کے لیے غیر ریاستی عناصر کی صورت میں عسکریت پسندی کی تشکیل و توسیع کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ انہیں کے درمیان چاروں طرف انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ تخلیق کار کی نظر جہاں ان المیوں کی حقیقت سے چوکتی ہے وہاں وہ سطحی ردعمل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور آج کی نظم اسی سطحی ردعمل کا اعلامیہ بنی نظر آتی ہے۔ اگر تخلیقی رویہ اس سطح پر ظہور کرتا ہے تو وہ بے سمتی اور بے بضاعتی سے بچ نہیں سکتا۔ صورت حال کے حقیقی ادراک سے محرومی لایعنی سوالوں پر منتج ہوتی ہے۔ یوں جواب سے بے زار سوالوں کا رجحان پروان چڑھتا ہے اور حسی شعریات لایعنیت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کرب کی امیجری کو اگر محض خیال کی شدت سمجھ لیا جائے تو ایسی سوچ اچھی نظم کی تجسیم کرنے کی قوت سے خالی ہوتی ہے۔
آج کی نظم کی ’داخلیتِ محض‘ کچھ نہیں ہے۔ شاعر من کی دنیا ضرور کھوجتا ہے۔ وہ اگر من کی دنیا سے واقف نہ ہو تب بھی سطحی نظم بنتی ہے اور اگر داخلیتِ محض کا اظہار ہو تب بھی۔ سماج سے انسلاک کی ضرورت اور مجبوری جتنی آج ہے، اس سے قبل پہلے کبھی نہ تھی۔ آج کے دیہی انسان کو بھی عالمگیریت کے اثرات نے اس کے خول سے کھینچ نکالا ہے اور اپنے رنگوں سے آشنا کرکے چھوڑا ہے۔ اور چھوڑا ہی کب ہے۔ وہ اب اس کے ساتھ صارفیت کے کلچر میں ’بُری طرح‘ جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نظم میں داخلی عناصر اظہار کی سطح پر سماجی حوالوں اور علامات سے جان نہیں چھڑا پارہے۔ شہری اور دیہی زندگی میں کم ہوتے فاصلوں نے شاعر کے اندر داستان گوئی کی صلاحیت اورخواہش کو مزید اجاگر کیا ہے۔ وہ سماجی نفسیاتی پیچیدگیوں کے باعث ماضی قریب کو ماضی بعید کے ساتھ آمیز کرکے داستانوی رنگ آمیزی کرنے پر مجبور ہے یعنی عصری شعریت میں اس عنصر کو رنگ آمیزی ، مٹھی سے پھسلتے وقت اور تنہائی کے احساس کے اظہار کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اس لیے آج کی نظم میں یہ رنگ آمیزی جمالیاتی سطح پر ظہور کررہی ہے، جو آج کی نظم کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ آج کی نظم کے جمالیاتی عناصر میں حسرت اور خواہشوں کے دُلار سے معمور یاد ماضی کے لیے تڑپ واضح ملتی ہے۔ تخلیقی داعیہ جتنا مستحکم اور باشعور ہوتا ہے اتنی ہی نظم فرار کی علت سے محفوظ رہتی ہے۔ ایسی نظمیں یاد ماضی کے پردے میں بین السطور آج کی پیچیدہ نفسیات کی طرف جمالیاتی اشارے کرتی ملتی ہیں۔
آج کی نظم توسیعی شعور کا بیّن اظہار ہے۔ اس لیے نظم نہ صرف موضوعاتی تنوّع کی حامل ہے بلکہ ذہین کلامیہ بنی نظر آتی ہے۔ جس کی تہ میں ذہنی و سماجی آزادی اور ثقافت کا شعور کارفرما ہے۔ شاعرکے پاس تفصیلی خیالات ہیں‘ تصورات ہیں‘ یادداشتیں ہیں؛ جن کی ترسیل اور ادراکی درجہ بندی کے لیے وہ شعری زبان بروئے کار لاتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے معاشرے بلکہ دیگر معاشروں میں بھی وقوع پذیر حادثات کو محسوس کرتا ہے۔ یہ سب اس کی فوری یادداشت کا حصہ بنتا ہے اورشعری حسیت سے آمیز ہوتا رہتا ہے۔اس کے ہاںنظم میں پیچیدہ رویوں کی شیرازہ بندی کا تاثرملتا ہے جوتوسیعی شعورکی علامت ہے ۔ لیکن اس سلسلے کی اہم بات یہ ہے کہ توسیعی شعور کو اگراچھے طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ تخلیق کے دروازے وا نہیں کرتابلکہ بے روح نظمی اجسام کی تشکیل کرنے لگتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت نے سوچ و فکر کو متاثر ضرور کیا ہے اور اسے بے سمتی کی طرف دھکیلا بھی ہے تاہم روح عصر میں تیرتے فطری قوانین بھی اپنی چالیں چل کر انسانی فکر میں راستے بناتے رہتے ہیں۔ آج کی نظم میں اسی حریت پسندانہ انسانی فکر کی موجودگی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس فکر نے آج کی نظم کو ایک طرف مردہ لفظوں کا ڈھیر دیا ہے تو دوسری طرف زندہ منظوم پیکر بھی فراہم کیے ہیں جو احساس و معانی کی ترسیل کی قوت کے حامل ہیں۔ اس لیے فکری سطح پر آج کی نظم بہت پھیلی ہوئی ہے۔ اس پھیلاو¿ کا احساس کماحقہ تب ہوسکتا ہے جب آج کی نظم کو اس کا قاری مل جائے۔ توسیع پسندانہ اور اپنے غیر منطقی وجود کو برقرار رکھنے کی نفسیات نے سماجی ناخواندگی کے سازشی ہتھیار سے شعور کی بیداری اور اس کے پھیلاو¿ کے عمل کا راستہ روک رکھا ہے۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔ ہمارے ادب کو آج تک اپنے اس سب سے بڑے اور بنیادی دشمن کا ادراک نہیں ہو پایا ہے۔ اس لیے ادب اس ضمن میں خاموش رہا اور اپنے اندر اس صورت حال سے لڑنے کی کوئی تخلیقی پگڈنڈی ساخت نہیں کرسکا۔ موضوعات کی طرح آج کی نظم اپنے خارجی سانچوں کے ساتھ بھی نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے۔ نظمیں اپنے تخلیق کاروں کے واضح اسلوب کے ساتھ منصہ شہود پر رونما ہورہی ہیں۔ یہ آج کی نظم کی ایک اور بڑی خاصیت ہے جو اس کے زرخیز مستقبل کی نشان دہی کرتی ہے۔ کہیں اسلوب تجربہ ہے تو کہیں فطری تخلیقی نمود۔ دونوں صورتوں میں آج کی نظم کا کینوس موضوعاتی تنوع کے ساتھ مل کر وسیع ہورہا ہے۔ اسلوب کی تشکیل عمومی تخلیقی سطح پر ممکن نہیں ہوتی۔ خصوصی تخلیقی سطح عصری‘ شعوری اور شعری حسیت کے گہرے داعیے کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ بعض اوقات سطحی تخلیقی سطح پر چیختی چنگاڑتی لسانی تشکیلات اسلوب کی تشکیل کا فریب دے جاتی ہیں لیکن یہ تخلیقات عصری نظمیات میں جگہ پانے میں ناکام رہتی ہیں۔ آج کی نظم میں اس رجحان کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔
اس عجیب صورت حال کو جس میں حد درجہ پیچیدگی پائی جاتی ہے، ایک نہایت متضاد صورت حال سے بیان کیا جاسکتا ہے اور یہ منطقی بھی ہے، یہ صورت حال انتہائی سادگی کے جوہر سے لبریز ہو تو پیچیدگی کی شدت کو آن واحد میں ایک طرف کرکے سہولت سے بیان کردیتی ہے۔ چناں چہ اصطلاح ”آج کی نظم“ جدید کے بعد آنے والے ادوار کی پیچیدگی کو ڈی کوڈ کرتی ہے۔ اور ہم، جو پیچیدگیوں کی وضاحت میں مزید پیچیدگیوں کو جنم دینے کے رجحان کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں، ایک ایسی صورت حال میں داخل ہوتے ہیں جہاں ہمارے پیچیدہ خیالات کسی نہ کسی قابل فہم صورت میں تجسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے آج کی نظم کا بنیادی مسئلہ یہی پیچیدگی ہے۔ سماجی اقدارکی تبدیلی کا عمل جس تیزی سے جنم لیتا ہے اسی سرعت سے پیچیدگیاں بھی زیریں سطح پر سراٹھانے لگتی ہیں لیکن ان کا عوامی سطح پر ظہور وقت کے ایک مخصوص وقفے کے بعد ہوتا ہے۔ وقت کا یہ وقفہ ایک خلا کی صورت میں جس طرح انسانوں کے مزاج میں داخل ہوتا ہے اسی طرح آج کی نظم میں بھی جگہ جگہ پایا جاتا ہے جو اس کی تفہیم کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
اگرچہ ہم کئی کلیشوں کی طرح ”ادب انسانی مسئلہ ہے“ کو بھی ایک کلیشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن اس کی حیثیت بھی سطحی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بنیادی نکتے نے کبھی ہماری حقیقت تک اور ادب میں ہمارے مسائل کے حل تک رہنمائی نہیں کی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر ”ادب انسانی مسئلہ ہے“ تو پھر پہلے ”انسانی مسئلے“ کی نوعیت کے بارے میں کیوں نہ جانا جائے؟ انسانی مسائل کیسے، کہاں سے اور کس وقت جنم لیتے ہیں؟ جب ادب کو سماج سے جوڑنے کی بات کی جاتی ہے اور ”ادب کی پہچان“ کے حوالے سے ادب کے مسائل سماج ہی کے مسائل کی گہرائی سے ناپے جانے کی تجویز دی جاتی ہے تو اسے اس لیے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ ایسا کیا جانا محض ایک ”صورت حال“ کی نشان دہی کرنا ہے۔ اگر ادب کو سماجی نفسیات میں موجود مختلف عناصر کے آئینے میں دیکھا جانا محض ”ایک صورت حال“ ہے تو پھر ”ادب انسانی مسئلہ“ کیسے ہے؟ سوال ضرور اٹھے گا کہ کیا ”ادب انفرادی انسانی مسئلہ“ ہے یا ”ادب اجتماعی انسانی مسئلہ“ ہے؟ پھر یہ سوال بھی اٹھے گا کہ ادب ”کس انسان“ کا مسئلہ ہے؛ کالے کا‘ گورے کا‘ مسلم کا‘ عیسائی کا‘ یہودی کا‘ ہندو کا‘ لادین کا‘ کس کا؟ یہ سوال بھی اٹھے گا کہ یہ انسان کس براعظم کا ہے‘ کون سی زبان بولتا ہے؟ اور یہ کہ یہ انسان مرد ہے یا عورت؟ ادب اگر انسانی مسئلہ ہے تو پھر کسی بھی دور کے ادب کی پہچان اور انفرادیت کی تلاش کا امکان بھی اجتماعی اور انفرادی انسانی مسائل کی بنیاد ہی پر سامنے آسکتا ہے۔ مابعد تھیوری جس صورت حال کو نشان زد کرتی ہے‘ اس کو اگر ہم سطحی طور پر دیکھیں گے تو یہ ”صورت حال“ ہم پر کبھی نہ کھل سکے گی۔ اس ”صورت حال“ نے سماجی تفہیم کے نظام سے جنم لیا ہے۔ اس کے تحت مابعد جدید ثقافت نے پائیداریت کو وسیع تناظر میں ایک مسئلے کے طور پر دیکھا۔ ادبی جمالیاتی نظریے کی تشکیل میں قاری کی شمولیت اسی پائیداریت کا شاخسانہ ہے۔ مغرب نے ثقافت پر تنقید میں قارئین کے رجحانات اور میلانات کو شامل کرکے معاشی نقطہ نظر سے ادب کے افادی پہلو کو مستحکم کیا۔ اس ”صورت حال“ کے پھیلاو کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ”پائیداریت“ کا جن عناصر پر انحصار ہوتا ہے انھیں دیکھنا چاہیے۔ آئی یو سی این (قدرتی ماحول کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی یونین) کے مطابق ”پائیداریت کا انحصار اندرونی و بیرونی عناصر کے درمیان تعاملات پر ہے۔ اندرونی عناصر سماجی، سیاسی، ماحولی یا معاشی ہوسکتے ہیں۔ جبکہ بیرونی عناصر میں غیرملکی قرضہ جات، ساختی غربت، عالمی ماحولیاتی مسائل اور ’سماجی۔ سیاسی۔ معاشی‘ تنازعات شامل ہیں۔“ اس ”صورت حال“ میں انسانی احساسات، جذبات، خواہشات اور چاہتوں نے جو رخ اور رنگ اختیار کیا، اس نے مابعد تھیوری کے خدوخال واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی ”صورت حال“ نے مخصوص دانش ورانہ اور ثقافتی فضا کی تشکیل کی جس میں حیات و کاینات سے متعلق لوگوں کا مخصوص طرز فکر اجاگر ہوا۔ آفاقی اقدار کے انکار سے عقائد اور اقدار نے نیا رنگ اختیار کیا۔ شاعر اس ”روح عصر“ سے جڑے۔ ان کی نظموں میں نئی خصوصیات در آئیں۔ پائیداریت کے مختلف عناصر کے باہمی تعامل نے تفہیم کے حوالے سے پیچیدگیوں کو جنم دیا تھا۔ یہ پیچیدگیاں نظم نگاروں کی تخلیقات میں تخلیقی شعریات کی صورت میں منقلب ہوئیں۔ نوبل انعام یافتہ شاعر شیمس ہینی نے جب سیاسی موضوعات کو جنسی اشاروں کے ساتھ تخلیقی طور پر آمیز کیا تو اس نے بلا کی پیچیدگی کو جنم دیا۔ میں نے جس تضاد کو عالمگیریت کا انت کہا ہے اس نے ”صورت حال“ کے کلائمکس یعنی نائن الیون کو جنم دیا۔ اس کے بعد سے عالمی سماج (بالخصوص ہمارا) جن قیامت خیز زلزلوں کی زد میں ہے، اس سے سماجی تفہیم کا نظام نئے چیلنجز سے آشنا ہوا ہے۔ سماجی تفہیم کا دائرہ کار وسیع ہوگیا ہے لیکن اس پر عالمی سطح پر تحقیقی کام کے حوالے سے خلا تاحال موجود ہے۔ ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین دوریاں اور بڑھ گئی ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ ہندوو¿ں‘ یہودیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی ہے۔ اس صورت حال میں نظم اپنے تخلیق کار سے ”روح عصر“ کو دانش کے پوروں سے چھونے اور شعری جمالیات سے آمیز کرکے برتنے کا بجا تقاضا کرتی ہے۔ روح عصر کے حوالے سے عموماً یہ مغالطہ ذہنوں میں پایا جاتا ہے کہ ہر تخلیقی اظہار کے پس منظر میں روح عصر کار فرما ہوتی ہے۔ اس بیان کا سطحی پن بہت گمراہ کن ہے۔ اگر ایسا ہو تو ”روح عصر“ کی اہمیت اور حیثیت متعین کرنے سے قبل ”تخلیقی اظہار“ کی حقیقت جاننا ضروری قرار پائے گا۔ اگر ”تخلیقی اظہار“ اردو شاعری میں وافر مل جاتا ہے تو پھر ”روح عصر“ کی حیثیت مشکوک ہونا لازم ہے۔ روح عصر کو سمجھنے کے لیے تو عصری دانش کے ساتھ ساتھ شعری جمالیات کا درک بھی بہت ضروری ہے۔
آج کی اردو نظم تیزی سی بدلتی اقدار کا المیہ ہے۔ جو اس المیے کو اپنے ستعاراتی اور علاماتی نظام کا حصہ نہ بناسکے، وہ آج کی نظم نہیں ہے۔ کائنات‘ خالق کائنات اور موت و حیات کی کشمکش آج کی نظم میں نئی لسانی تشکیلات کے ساتھ روبہ عمل ہے۔ انھیں سمجھنے کے لیے شاعر کو ہمیشہ اپنے من کی دنیا کے گھمبیرتا میں اترنا پڑتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان خود سے زیادہ‘ پہلے اپنے ماحول سے آشنا ہوتا ہے۔ یہ اس کا سماج ہی تو ہے جو اسے ’خود‘ کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس لیے اگر شاعر اپنے ماحول کو درست طور پر سمجھ نہیں پایا ہو تو وہ اپنے من کی گھمبیرتا کو کیسے درست طور پر سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک انسلاکی عمل ہے۔ آج کے عالمی معاشرے میں آزادی کا جتنا غلغلہ ہے‘ انسان کی مجبوری اور معذوری پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ انسان کی قدر کا سب سے بڑا داعیہ محض اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک ’اہم خریدار‘ ہے۔ یہ پوٹینشل کنزیومر سادگی اختیار کرنے سے معذور ہے۔ یہ جب چلتا ہے تو اس کے پیچھے بہت سارے تصورات سائے کی طرح پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ پیچیدگی وہاں در آتی ہے کہ یہ خریدار اپنی چاہت اور ضرورت کے مطابق خریداری نہیں کرسکتا۔ بیش تر اوقات اسے وہ چیزیں خریدنی پڑتی ہیں جو اسے نقصان پہنچاتی ہیں۔ جہاں وہ خریداری کو اپنی مرضی اور چاہت سمجھتا ہے‘ وہاں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ مرضی اور چاہت اس پر باقاعدہ ایک نظام کے تحت مسلط کی گئی ہے۔ یہ تسلط ہی ہے کہ چلتے وقت اس کے پیچھے سائے کی طرح تحفظ کا تصور بھی چلتا ہے‘ بنیادی ضرورتوں میں ترجیح کا تصور بھی چلتا ہے‘ خوف‘ بے روزگاری‘ تعلیم‘ صحت‘ بچوں کے مستقبل‘ مقابلے کی دوڑ‘ ممتاز نظر آنے‘ انشورنس‘ سرمایہ کاری‘ بینکاری‘ کاروبار‘ حرص‘ لالچ‘ ہوس‘ سُستی‘ بے کاری‘ لایعنیت اور اس طرح کے بے شمار سائے چل پڑتے ہیں۔ اس لیے اگر آج کی نظم آج کا جمالیاتی آئینہ ہے تو آج کی نظم کہلائے گی۔ اچھے شعرا کے ہاں یہ سائے ہمیں ان کے شعری نظام کی معنویت میں ملتے ہیں۔ ان نظموں میں خیال کے پیچھے لاشعوری طور پر کئی اور خیالات سائے کی طرح چلتے ہیں۔ شاعر کہیں بے بس ہوتا ہے کہیں بے خبراور کہیں شاطر۔ یہی وجہ ہے کہ علامات کا ایک بے طرح جال ہوتا ہے آج کی نظم میں۔ کہیں یہ علامات بے سوچے سمجھے روبہ عمل آتی ہیں‘ کہیں شاعر شاطر بن کر قاری کو الجھاتا رہتا ہے۔ شعور سے لاشعور اور لاشعور سے تخلیق اور تخلیق سے قاری تک اس فنی و معنوی سفر کے دائرے میں الجھاوا گہرے سماجی انسلاک کی طرف ایک اشاریہ ہے۔ اس اشاریے کو ڈھونڈ نکالنا خود کو سماج کے ساتھ جوڑنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔
اور اب ادب برائے تبدیلی کی تحریک کے حوالے سے ’اجرا‘ کے صفحات پر وہ آئنے تشکیل پارہے ہیں جنہیں آج کا جمالیاتی آئینہ کہا جاسکے گا۔ عین ممکن ہے کہ مابعد جدید سماجی صورت حال میں فنی ، متنی اور معنوی الجھاﺅں کے بطن سے وہ تخلیقی وفور وجود میں آجائے جس کی جڑیں ’سماجی بصیرت‘ میں پیوست ہوں اور وہ بُلندی اور وسعت میں انسان کے مثبت احساسات و اقدار کا سرچشمہ بن جائے۔
رفیع اللہ میاں