- Advertisement -

فریب حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بگڑا

ایک اردو غزل از خواجہ حیدر علی آتش

فریب حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ بت سے برہمن بگڑا

قبائے گل کو پھاڑا جب مرا گل پیرہن بگڑا
بن آئی کچھ نہ غنچے سے جو وہ غنچہ دہن بگڑا

نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخم شہیداں کا
تری تلوار کا منہ کچھ نہ کچھ اے تیغ زن بگڑا

تکلف کیا جو کھوئی جان شیریں پھوڑ کر سر کو
جو تھی غیرت تو پھر خسرو سے ہوتا کوہ کن بگڑا

کسی چشم سیہ کا جب ہوا ثابت میں دیوانہ
تو مجھ سے سست ہاتھی کی طرح جنگلی ہرن بگڑا

اثر اکسیر کا یمن قدم سے تیری پایا ہے
جذامی خاک رہ مل کر بناتے ہیں بدن بگڑا

تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا

زوال حسن کھلواتا ہے میوے کی قسم مجھ سے
لگایا داغ خط نے آن کر سیب ذقن بگڑا

رخ سادہ نہیں اس شوخ کا نقش عداوت سے
نظر آتے ہی آپس میں ہر اہل انجمن بگڑا

جو بد خو طفل اشک اے چشم تر ہیں دیکھنا اک دن
گھروندے کی طرح سے گنبد چرخ کہن بگڑا

صف مژگاں کی جنبش کا کیا اقبال نے کشتہ
شہیدوں کے ہوئے سالار جب ہم سے تمن بگڑا

کسی کی جب کوئی تقلید کرتا ہے میں روتا ہوں
ہنسا گل کی طرح غنچہ جہاں اس کا دہن بگڑا

کمال دوستی اندیشۂ دشمن نہیں رکھتا
کسی بھونرے سے کس دن کوئی مار یاثمن بگڑا

رہی نفرت ہمیشہ داغ عریانی کو پھائے سے
ہوا جب قطع جامہ پر ہمارے پیرہن بگڑا

رگڑوائیں یہ مجھ سے ایڑیاں غربت میں وحشت نے
ہوا مسدود رستہ جادۂ راہ وطن بگڑا

کہا بلبل نے جب توڑا گل سوسن کو گلچیں نے
الٰہی خیر کیجو نیل رخسار چمن بگڑا

ارادہ میرے کھانے کا نہ اے زاغ و زغن کیجو
وہ کشتہ ہوں جسے سونگھے سے کتوں کا بدن بگڑا

امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا

جہاں خالی نہیں رہتا کبھی ایذا دہندوں سے
ہوا ناسور نو پیدا اگر زخم کہن بگڑا

تونگر تھا بنی تھی جب تک اس محبوب عالم سے
میں مفلس ہو گیا جس روز سے وہ سیم تن بگڑا

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

بناوٹ کیف مے سے کھل گئی اس شوخ کی آتشؔ
لگا کر منہ سے پیمانے کو وہ پیماں شکن بگڑا

خواجہ حیدر علی آتش

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از خواجہ حیدر علی آتش