کہتے ہیں کسی قوم کے ذہنی ارتقاء کا جائزہ لینا ہو تو اس کے تعلیمی ڈھانچے اور اس کے ذرائع مواصلات کو دیکھیں۔۔۔۔ان دونوں کی حالت آپ کو اس قوم کے ذہنی شعور اور ترقی کا صحیح اندازہ پیش کرے گی۔ اس تناظر میں اگر دیکھیں تو دنیا کی کئی قومیں ہمیں ناکام ہوتی نظر آتی ہیں۔ مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مملکت خدا داد جو ایک خاص نظریے کے ساتھ وجود میں آئی تھی، وہ پچھلے تریسٹھ سالوں میں ترقی تو دور کی بات، تنزلی کا شکار نظر آتی ہے ۔
میں نے جب 1969 میں ایک انگلش میڈیم سکول سے پاکستان میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تھا تو مجھے یاد ہے کہ کل ملا کر میرے بستے میں دو کتابیں اور تین کاپیاں ہوتی تھیں۔ تیسری جماعت تک جاتے جاتے کتابوں کی تعداد تو دو ہی رہی مگر کاپیوں کی تعداد پانچ ہو چکی تھی۔ پہلی چند جماعتوں میں اردو، انگریزی کے قاعدوں کے علاوہ کوئی کتاب نہیں ہوتی تھی مگر حساب کے لئے ایک اضافی نوٹ بک تھی۔ آگے چل کر نوٹ بک کی تعداد میں اسلامیات، معاشرتی علوم/سائنس کا اضافہ ضرور ہوا مگر کتابیں دو ہی رہیں۔
یہ میں آپ کو ایک پرائیویٹ کانونٹ سکول کا حال بتا رہی ہوں جو ساٹھ کی دہائی میں اپنے معیار کی بنیاد پر مانے جاتے تھے ۔ مگر میری چھوٹی بہنوں کے سکول پہنچنے تک بستے کے بوجھ میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا تھا۔ اب انگریزی، اردو، حساب، معاشرتی علوم، سائنس، کے ساتھ ساتھ اسلامیات کا بھی اضافہ ہو چکا تھا اور ہر کتاب کے ساتھ ایک ورک بک بھی لازم ہو چکی تھی۔ آنے والے سالوں میں یہ بوجھ بڑھتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ بچے کے وزن سے زیادہ کتابوں کا وزن ہو گیا۔
معلم کی حیثیت سے میرا تعلیم سے تعلق بہت پرانا ہے ۔ پاکستان میں بی ایڈ کے بعد میں نے تقریباً آٹھ سال مختلف سکولوں میں پڑھایا۔ یہاں بھی پچھلے آٹھ سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ جب بھی پاکستان کے مسائل کی طرف دھیان جاتا ہے تو سب سے پہلا خیال تعلیم کی طرف جاتا ہے ۔ پچھلی چند دہائیوں میں جہاں اور معاملات میں پاکستان مسائل سے دوچار ہوا ہے ، وہیں تعلیمی میدان میں بھی ایک تذبذب کا شکار ہے!
کوشش کے باوجود بھی مینسٹری آف ایجوکیشن پاکستان کی تعلیمی پالیسی پر خاطر خواہ روشنی ڈالنے میں ناکام رہی ہے ۔ ہر آنے والی حکومت چند کمیٹیاں قائم کرتی ہے اور کنفرنسیں بلانے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر سکی۔ میرے لئے سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے دانشور ہی اپنے مسائل نہیں سمجھتے اور ساری قوم یٹوپیا کی لپیٹ میں آئی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔
ایک ایسی قوم جو شاید بیس سے زائد مقامی زبانیں بولنے والوں پر مشتمل ہے ،اسے انگریزی سیکھانے کی تگ و دو ہو رہی ہے جبکہ وہ اردو سے بھی نا واقف ہے ۔ ایسی آبادی جو ستر فیصد سے زیادہ نا خواندہ ہے ، اس کے بچوں کو کتابوں کے بوجھ سے ایسے لاد دیا گیا ہے جیسے واقعی میں وہ گھر جا کر اپنے بستے کھول کر بیٹھ جائیں گے اور ان کے والدین ان کی راہنمائی کریں گے!
کیا یہ سوچنے کی بات نہیں کہ کتابوں کے اس بوجھ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟ کیا یہ سوچنا تعلیمی دانشوروں کا کام نہیں کہ قوم کو اس بے علمی کی دلدل سے نکالیں! کیا یہ سمجھنے کے لئے ہر ایک کا راکٹ سائنٹسٹ ہونا ضروری ہے کہ تعلیم دینے کے لئے لئے دس کتابوں کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ایک نیک نیت معلم کا ہونا ضروری ہے جو اپنا علم آگے تک پھیلانا چاہتا ہو۔۔۔۔!!!
تدریسی کتب
ساری دنیا میں درسی کتب کے اشاعتی ادارے ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ کچھ ممالک میں تو یہ مافیا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان میں یا تو درسی کتب ٹیکسٹ بک بورڈز کی زیر نگرانی شائع ہوتی ہیں یا پھر باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ کوشش کے باوجود سمجھ نہیں آ سکا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کا کتابوں کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہے اور وہ کس بنیاد پر کسی مصنف کی لکھی کتاب کو تدریس کے لئے مناسب قرار دیتے ہیں۔
دوسری طرف پرائیویٹ سکول ہیں جو کہ خود ایک مافیا کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ میرے علم اور تجربے کے مطابق پرائیویٹ سکول زیادہ تر مفید کتب کی بجائے پاپولر کتب کے نظریے پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ کتابوں کے انتخاب کے وقت باہر کے پبلشروں سے پاکستان ایڈیشن منگوایا جاتا ہے ۔ مختصر جائزے کے بعد چند کتابوں میں سے ایک کتاب چن لی جاتی ہے اور پھر اس کا آرڈر دے دیا جاتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر چند سال بعد کتابیں کیوں بدل دی جاتی ہیں اور بچوں پر بوجھ کا اضافہ کیوں کیا جاتا ہے ؟ سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیز، جہاں جہاں بھی باہر کی چھپی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، وہاں اس تواتر سے کتابیں کیوں بدلی جاتیں ہیں۔ تدریسی شعبے سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک ایڈیشن سے دوسرے ایڈیشن تک انیس بیس کا بھی فرق نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو صرف باب آگے پیچھے کیے جاتے ہیں یا پھر سوالوں کو ادھر ادھر کر دیا جاتا ہے ۔ ایسے میں اگر پرانا ایڈیشن خریدیں تو اگر وہ سو روپے میں آتا ہے تو نیا ایڈیشن پانچ سو میں آئے گا!
اس سب ادلا بدلی میں کس کا فائدہ ہے ؟ طالب علم اور اس کے والدین کا؟ تعلیمی اداروں کے منتظمین کا؟ یا پھر پبلشر حضرات کا؟ عمومی تاثر جو ساری دنیا میں پایا جاتا ہے کہ پبلشر حضرات اداروں کو خوش رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر ان کی کتابیں بکتی رہتی ہیں۔ مگر اس سب میں مزے کی بات یہ ہے کہ جو پبلشر ہمارے ہاں ہر سال قیمت بڑھا دیتے ہیں، وہی پبلشر باہر کی دنیا میں جب سکولوں سے معاہدہ کرتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ جب تک وہ کتاب سکولوں میں پڑھائی جائے گی، تب تک پبلشر اس کتاب اور اس کے ساتھ ملنے والے لوازمات سکولوں کو مفت فراہم کرے گا۔ ان لوازمات میں ورک بکس، اور اب سی ڈیز وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اس سب کی روشنی میں اگر پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو سوائے حیرت اور جھجھلاہٹ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی ہمیں ٹیکسٹ بک بورڈ کی کار گزاری سمجھ میں نہیں آتی۔ جہاں درسی کتاب مواد کے لحاظ سے بوسیدہ ہے ، وہاں ظاہری حالت بھی دگرگوں ہے ۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود ہم یہ معمولی سا کام بھی نہیں کر پائے کہ گورنمنٹ سکول ہی اپنا بک بینک بنا ڈالیں۔ اسی طرح پرائیویٹ سکول کتابوں کی ایک لمبی لسٹ کے ساتھ طلباء اور والدین کا خیر مقدم کرتے ہیں اور بعد میں وہ کتابیں چھوٹے بہن بھائی نہ ہونے کی صورت یا نصاب بدلنے کی صورت ردی کی زینت بنتی ہیں۔ اس سب میں کس کا فائدہ ہے ؟
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں ہر مسئلے کا حل ناممکن لگتا ہے ، وہاں تعلیم تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہے ۔ مگر اگر تھوڑا گہرائی سے سوچا جائے تو کم از کم پانچویں کلاس تک تعلیم بچوں کو دینا اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے ۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ عام روش سے ہٹ کر سوچا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے سے نبٹا جائے ۔ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ سکول کے پہلے دو سال صرف بچے کو سکول کا عادی بنانے ، اصول و ضوابط سمجھانے ، کاغذ پنسل کا استعمال سیکھنانے میں صرف ہوتے ہیں۔ الف سے ے تک اور 1 سے 1000 کی گنتی میں کتنی ٹیکنالوجی چاہئے ہوتی ہے ؟ اسلام کے ارکان، نمازوں کے نام اور اوقات، صلوٰۃ کا طریقہ سیکھنے میں کتنا پیسہ لگ سکتا ہے ؟ حضور پاکﷺ اور خلفہ راشدین کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات سنانے کے لئے کتنے وسائل کی ضرورت ہے ؟ ہفتے کے سات دن، سال کے بارہ مہینے ، اور چار موسموں کے نام جاننے کے لئے کتنی کتابیں چاہئیں؟ پودے کے حصے ، جسم کے اجزاء کے نام سیکھانے کے لئے کتنی سی سائنس آنی ضروری ہے ؟ قائد اعظم کا تعارف اور تاریخ پیدائش، پاکستان کی آزادی کا دن، شاعر مشرق اور چار صوبوں کو یاد کرنے میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں؟
کیا اس سب کے لئے اردو کا ایک قاعدہ ہونا کافی نہیں؟ اگر انگریزی پڑھانا ضروری ہے تو ایک اور قاعدے کا اضافہ کر دیں! مگر کیا یہ کام ایک بی اے سیکنڈ ڈویژن پاس معلم با آسانی نہیں کر سکتا!!!
نصاب
بظاہر تو تدریسی کتب سے پہلے نصاب کی بات ہونی چاہئے تھی، مگر کیونکہ نصاب ہمارا بنیادی مسئلہ ہے تو مناسب سمجھا کہ کتب کے مسئلے پر پہلے کچھ بات کر لی جائے جو کہ اکثر بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ مگر تدریسی کتب کا بوجھ نصاب کا ہی مرہون منت ہے اور ہمارا نصاب تعلیم ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ ایک نظر نصاب تعلیم پر ڈال کر ہم واپس کتب کی طرف جائیں گے ۔
نصاب تعلیم کی اقسام
ساری دنیا میں دو طرح کے نصاب تعلیم ہیں۔۔۔۔ایک جو وہ پھلاؤ میں مرتب کیے جاتے ہیں اور دوسرے جو گہرائی میں ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ بہت سے اور ملکوں کی طرح ہم بھی نصاب کے پھیلاؤ کو اپنی تعلیمی میدان میں کامیابی سمجھتے ہیں اور جس کا خمیازہ بچوں اور ان کے والدین کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
پھیلاؤ کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا نصاب ایک مضمون میں موضوعات کی افراط پر یقین رکھتا ہے ۔ اس نظریئے کے ماننے والے تعلیم دان اس بات کے حامی ہیں کہ بچوں کو جس قدر زیادہ ہو سکے ، نئے موضوعات سے روشناس کروا دیا جائے ۔ یہ تعلیم دان اس بات کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ بچے کو کسی ایک موضوع پر عبور حاصل کرنے کے لئے مشق اور وقت دونوں چاہئے ۔ پہلی قسم کی مثال پاکستان، برطانیہ، اور کسی حد تک امریکہ میں بھی ملتی ہے ۔
دوسری طرف گہرائی میں مرتب کیا گیا نصاب اس بات کو مد نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے کہ طالب علم ایک ہی موضوع کو اچھی طرف جان پرکھ لے ۔ یہ نصاب تعلیم طالب علم کو موقع دیتا ہے کہ وہ کم موضوعات کو لے کر اس پر عبور حاصل کر لے ، اس سے پہلے کہ وہ کسی نئے موضوع کو جاننے کے لئے تیار ہو۔ دوسری قسم کی مثال دینے کے لئے جاپان کا نام سامنے آتا ہے جہاں حساب جیسے مضمون کو لے کر ایک جماعت میں ایک موضوع کو لے کر مہینوں صرف کیے جاتے ہیں، جب تک کہ طالب علم اس پر عبور حاصل نہ کر لیں۔
ہمارا نصاب تعلیم
جہاں ہمارے نصاب تعلیم نے بچوں کو بدحواس کیا ہوا ہے ، وہیں والدین کو بھی بوکھلا دیا ہے ۔ جو والدین کچھ عرصہ پہلے تک اپنے بچوں کو بخوبی پڑھا لیا کرتے تھے ، اب وہ اپنے بچوں کو نام نہاد "ٹیوشن سینٹرز” بھیجنے پر مجبور ہیں۔ جیسے جیسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ہر گلی میں ٹیوشن سینٹرز بھی بن رہے ہیں۔ نصاب تعلیم کو اسقدر وسیع کر دیا گیا ہے کہ ایک عام تعلیم یافتہ شخص اپنے بچوں کو بمشکل ہی پڑھا پاتا ہے ۔
پہلی سے لے کر پانچویں تک غیر ضروری کتب کا انبار ہے جو بچوں کے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے مگر اس کتاب کا سالانہ امتحان پاس کرنا ترقی کا زینہ سمجھا جاتا ہے ۔ کیا یہ سب کتب واقعی میں ہماری معاشرتی اور سائنسی ترقی میں کوئی حصہ ادا کر رہی ہیں یا پھر تعلیمی ادارے ایک مفروضے کو لے کر ساری قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟
تعلیمی میدان میں تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ بچے کے لئے مقامی زبان اور حساب میں عبور سب سے اہم ہے ۔ جو بچے کتاب پڑھنا جان جاتے ہیں، وہ ہر میدان میں آگے نکل جاتے ہیں۔ ہمارا اپنا مشاہدہ بھی بتاتا ہے کہ کتاب پڑھنے والا بچہ عموماً نہ پڑھنے والے سے آگے نکل جاتا ہے ۔ چار سے دس سال کے بچے کے لئے جو سب سے بنیادی اور اہم چیز ہے ، وہ ہے اس کا سمجھ کر پڑھنا اور پھر لکھنا ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ حساب پر عبور بھی کامیابی کی علامت ہے ۔ ایسے میں سائنس، معاشرتی علوم، اور اسلامیات کو آسانی سے اردو یا انگریزی کے نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے ۔
کوئی بھی نصاب تعلیم کو سمجھ سکنے والا شخص آپ کو بخوبی بتا سکتا ہے کہ ہمارے نصاب میں ٹھونس ٹھونس کا مواد بھرا گیا ہے ۔ ہمارا نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں نے معیار سے زیادہ تعداد کو کامیابی کی کنجی سمجھ رکھا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک بے مقصد ذخیرہ معلومات کو نصاب کا نام دے دیا ہے ۔ پہلی سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک، ایک ملغوبہ ہے جو طلبہ کو گھول کر پلایا جا رہا ہے ۔ اور پھر جب اس ملغوبے سے تیار شدہ طالبعلم فسٹ ڈویژن لے کر آتے ہیں تو ہم اپنے ہی نظام تعلیم کو "انٹری ٹیسٹ” کے سامنے چیلنج کرتے ہیں اور اس کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر اس سب میں مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس بوجھ کے بعد بھی ہمارے سرٹیفکیٹ، ہمارے ڈپلومے ، اور ہماری ڈگریاں باہر کی دنیا میں ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور ہمیں "SAT, GMAT, MCAT” وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔
مسئلے کا حل
ہم ہر مسئلے کا حل مسئلے کو مزید پیچیدہ کر کے نکالتے ہیں۔ مگر ہمارا تعلیمی نظام اب کسی قسم کی پیچیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آسان اور سادہ راستہ اپنایا جائے اور بتدریج اسی نظام کو عالمی نظام کے برابر لایا جائے ۔ اگر پہلی سے پانچویں تک کے نصاب پر نظر ثانی کی جائے اور کتابوں کی تعداد کو کم کر کے دو پر لے آیا جائے تو بہت سے مسائل یہیں حل ہو جائیں گے ۔
پرائمری تعلیم
بنیادی تعلیم میں اردو، حساب، اور انگریزی کو جگہ دی جائے ۔ کتاب کا استعمال صرف اردو اور انگریزی کے لئے کیا جائے ۔حساب، اسلامیات، معاشرتی علوم، اور سائنس کے لئے صرف نصاب ہو جسے کوئی ٹرینڈ استاد بآسانی پڑھا سکتاہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں انگریزی پرائیویٹ اور کونونٹ سکولوں میں ماضی میں ایسا ہو تا رہا ہے اور اب بھی اسی طریقہ کار کو رائج کرنا کوئی ایسی ناممکن بات نہیں ہے ۔
ہمارا سارا زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ ہمارے بچے پہلی سے لے کر پانچویں تک اردو پر مکمل عبور حاصل کر لیں اور نا صرف پڑھنے بلکہ لکھنے اور مضمون نویسی میں بھی ماہر ہو جائیں۔ بے شک کہ ہر زبان کے قاعدے اور قوانین ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں مگرتنقیدی نظر سے تحریر کا جائزہ لینا اور اس کو سمجھ کر پڑھنا ہی کسی طالب علم کی کامیابی کی دلیل ہے ۔ اگر ہمارا طالبعلم اردو میں ماہر ہو جائے تو وہ کسی بھی زبان پر عبور حاصل کر سکتا ہے ۔
اس کے بعد باری آتی ہے حساب کی۔ حساب کو انگریزی اور فرانسیسی سے زیادہ عالمی زبان سمجھا جاتا ہے ۔ اب جو قومیں حساب اور علم ہندسہ میں ماہر ہیں، وہ ہر علم میں آگے نکل رہی ہیں۔ قومی زبان کے بعد ہمارا زور حساب کی تعلیم پر ہونا چاہئے ۔ مگر اس میں ہمیں پھیلاؤ سے زیادہ گہرائی پر نظر رکھنی ہو گی۔ ہم نے عرصہ دراز تک حساب کو بھی اردو اور انگریزی سمجھ کر پڑھایا ہے اور سمجھ سے زیادہ رٹے کو اہمیت دی ہے ۔ اب ہمیں اس کے نصاب پر ایک اور نظر ڈالنی ہو گی اور اسے مشکل سے زیادہ مفید بنانا پڑے گا۔
اگر اردو کے ساتھ ساتھ ہم انگریزی کو پڑھانا لازم ہی سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں اسے ایک "فارن لیگویج” کے طور پڑھانا پڑے گا کیونکہ یہ تو ہم جان ہی چکے ہیں کہ بطور "سیکنڈ لینگویج” ہم اسے پڑھانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہمیں انگریزی کے اساتذہ کو بطور خاص ایک نئی زبان پڑھانے کی ٹریننگ دینی پڑے گی تاکہ ہمارا طالبعلم باہر کی دنیا مین انگریزی کے دو جملے سن کر حواس باختہ نہ ہو جائے ۔
بہت سے قاری اس بات پر حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں نے اسلامیات پر بات کیوں نہیں کی یا اس کو اسقدر کم اہمیت کیوں دی ہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے ! میرا نظریہ یہ ہے کہ اسلامیات پڑھنے کے لئے کسی کتاب یا ورک بک کا ہونا ضروری نہیں ہے ، ہاں مگر مفصل نصاب کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ اگر اسلامیات کو تھوڑی دیر کے لئے ایک مضمون سمجھ لیا جائے تو اسے ایک قابل اور ٹریننڈ استاد بغیر کسی کتاب کے بخوبی پڑھا سکتا ہے ۔ ویسے دیکھا جائے تو اسلام کوئی مضمون نہیں ہے بلکہ یہ ایک دین ہے ۔ دین پر عمل کیا جاتا ہے پڑھایا نہیں جاتا اور عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ دی جائے نا کہ اسے پڑھایا یا رٹوایا جائے ۔ اس تناظر میں اگر آپ دیکھیں تو دن میں ایک گھنٹہ قرآن اور حدیث کی تعلیم زبانی بھی دی جائے تو نتائج شاید کتابوں کے بوجھ سے بہت فعال اور بہتر ہوں گے ۔
اسی طرح معاشرتی علوم اور سائنس کی تعلیم بھی اردو نصاب کا ہی حصہ ہونا چاہئے یا پھر زبانی اور عملی تعلیم دی جائے ۔ اب تک کے طریقہ کار سے نہ تو ہمارے معاشرتی نظام میں کوئی بہتری آئی ہے اور نہ ہی سائنس کے میدان میں ترقی ہوئی ہے ۔ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کو عملی طور پر پڑھائیں اور صرف کتابوں کا سہارا لے کر رٹے کو تقویت نہ پہنچائیں۔
اپنے ملک کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ تعلیم کا عمل صرف سکول تک محدود ہو اور طالبعلم کو "ہوم ورک” ہفتے میں صرف دو سے تین بار دیا جائے ، وہ بھی صرف ایک وقت میں ایک مضمون کا۔ ہمارے ملک کے ناخواندگی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے اساتذہ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ہمارے طالب علم کو گھر سے کوئی تعلیمی مدد نہیں ملتی۔ اس کے لئے والدین کو پھر سے ٹیوشن سینٹرز کا رخ کرنا پڑے گا۔ گھر کے لئے صرف وہ کام دیا جائے جو بچہ کسی مشکل اور تردد کے بغیر خود سے کر لے ۔ تعلیمی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ پہلی اور دوسری جماعت کے بچے کے لئے تیس سے چالیس منٹ کا کام، ہفتے میں دو سے تین بار کافی ہے ۔ اس کام میں پانچویں جماعت تک ہر سال دس سے بیس منٹ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ طلبہ کو کوئی کام دینے کا اصول ہے کہ استاد وہ کام خود سے ایک تہائی وقت میں کر لے !
نصاب
مڈل سکول
مڈل سکول ہائی سکول اور سیکنڈری تعلیم کی پیش بندی ہوتا ہے ۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جس میں بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر بہت سی تبدیلیوں میں سے گزر رہا ہوتا ہے ۔ اسی دور سے کسی طالب علم کی ذہنی صلاحیتوں کا رجحان طے ہوتا ہے اور صحیح تخلیق شروع ہوتی۔ اس دور میں ضروری ہے کہ بچے کا تعارف مختلف مضامین سے تفصیل سے کروایا جائے اور بچے کو عملی طور پر اردو، حساب، انگریزی، معاشرتی علوم، اور سائنس کی تعلیم دی جائے ۔
چھٹی جماعت میں اب ضروری ہے کہ بچے کو دن میں چار سے پانچ مضامین پڑھائے جائیں مگر زور اردو، حساب اور انگریزی پر ہی دیا جائے ۔ اسلامیات اور معاشرتی علوم کو ایک ہی جگہ رکھتے ہوئے ، دونوں کے درمیان وقت برابر تقسیم کیا جائے ۔ اسلامیات میں زور اس بات پر ہو کہ بچہ عملی طور بھی دین کو سمجھے اور اس پر عمل کرے ۔ معاشرتی علوم میں جہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پاکستان اور اسلامی تاریخ پر نظر رکھیں، وہیں عالمی تاریخ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ سائنس کا مضمون بھی اب پہلے سے زیادہ توجہ کا متقاضی ہو گا۔
ساتویں جماعت تک آتے آتے طالبعلم کو انگریزی لکھنے پر عبور حاصل ہو نا چاہئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ اور اسلام سے تعلق رکھنے والے موضوعات میں بھی وسعت آنی چاہئے ۔ اس دور میں طالب علم کے لئے اردو اور انگریزی کی اہمیت ایک سی ہو جانی چاہئے ۔ ایسے میں تعلیم دانوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ سائنس کی تعلیم مکمل طور پر انگریزی میں دی جائے یا پھر اردو میں۔ اس بات کا کوئی مناسب جواز نہیں ہے کہ کچھ ادارے انگریزی میں تعلیم دیں اور کچھ اردو میں۔ اگر ہمارے ہاں اپنے سکالرز کی ریسرچ اور کتابیں دستیاب نہیں ہیں تو پھر انگریزی کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے ۔ نہیں تو پھر ہمیں ریسرچ پر زور دینا ہو گا تاکہ ہم صرف باہر کی کتب کے ترجمے پر ہی انحصار نہ کریں بلکہ اپنے لئے خود سے تدریسی مواد تیار کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس موقع پر فنون لطیفہ جیسے ڈرائنگ، سکیچنگ، یا پھر موسیقی سے بھی بچوں کو متعارف کر وایا جا سکتا ہے ۔
آٹھویں جماعت تک آتے بچے کو انگریزی، اردو، اور حساب پر مکمل عبور حآصل ہو نا چاہئے ۔ اس کے ساتھ بچے کے لئے کسی بھی نئی زبان سے تعارف بھی ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر کو باقاعدہ مضمون کے طور پر متعارف کروایا جا سکتا ہے اور سائنس کو مزید اہمیت دی جا سکتی ہے ۔ مگر سب سے اہم یہ ہے کہ بچہ اردو اور انگریزی میں مکمل دسترس حاصل کر لے اور اسے رابطے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کے قابل ہو۔ ان تین سالوں میں فزیکل ایجوکیشن کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہئے اور ایک دن میں چار سے پانچ مضامین سے زیادہ نہ پڑھائے جائیں۔
اس موقع پر گھر کے کام میں بتدریج اضافہ کیا جانا چاہئے تاکہ بچہ ہائی سکول کے لئے تیار ہو جائے ۔ مگر کام کو مشقت کا ذریعہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے علم حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جائے ۔ بچے کو دیئے کام کی نوعیت ایسی ہونی چاہئے کہ وہ اسے بغیر کسی بیرونی امداد کے خود سے کر لے ۔ اگر بچے کو ہر مضمون کے لئے ٹیوشن کی صورت پیش آ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے یا تو اپنا کام نیک نیتی سے نہیں کر رہے یا پھر بچوں پر کام کا ضرورت سے زیادہ بوجھ ہے ۔ مڈل سکول تک بچے کے لئے روزانہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا کام مناسب رہتا ہے اور اس کی مناسب ذہنی اور جسمانی نشو و نما کا باعث ہوتا ہے ۔
ہائی سکول یا انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری تعلیم
سب سے زیادہ فرسودگی ہمیں اس دور تعلیم میں نطر آتی ہے جس کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے او لیول،اے لیول یا پھر SAT وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔ پچھلے تیس سے چالیس سالوں کے درمیاں ہمارے ساتھ کے سب ممالک نے اپنے ہائی سکول کے تعلیمی معیار کو عالمی معیار کے مطابق ڈھال لیا ہے مگر ہم اپنی تعلیمی پھیلاؤ کو تعلیمی ترقی کا نام دے رہے ہیں۔ ہر ملک میں ہائی سکول تقریباً چار سے پانچ سال پر محیط ہے مگر ہمارے ہاں اب بھی دو سال میں کروایا جاتا ہے ۔ چلیں اگر ہم ایف اے اور ایف ایس سی کے دو سال کو بھی ہائی سکول کا حصہ مان لیں تب بھی ہمارے مضامین کی تعداد ساری دنیا میں پڑھائے جانے والے مضامین سے کہیں کم ہے ۔ ہمارا سب زور پہلی سے لے کر آٹھویں تک کتابوں کے بوجھ پر صرف ہوتا ہے ۔ ہائی سکول میں بھی بوجھ میں تو کوئی کمی نہیں ہوتی مگر مضامین میں کوئی جدت نظر نہیں آتی۔
تقریباً ساری دنیا میں ہائی سکول چار سال کا ہے اور ان چار سال میں انگریزی یا جیسے ہمارے ہاں اردو کا پڑھانا لازم ہے ۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی تک جانے کے لئے ہائی سکول میں کم از کم تین سال تک حساب پڑھنا لازم ہے جس کا پھیلاؤ الجبرا، جیومیٹری، سٹیٹسٹکس سے لے کر کیلکیولس تک ہے ۔ دنیا میں ہر جگہ ایک غیر ملکی زبان کا کم از کم دو سال تک پڑھنا بھی ضروری ہے ۔ اپنے ملک کی تاریخ کے علاوہ عالمی یا یورپین تاریخ بھی کم از کم تین سال پڑھنا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ سائیکالوجی، بیالوجی، فزکس، کیمسٹری، جعغرافیہ، ہیلتھ سائنس، فنون لطیفہ، اور کمپیوٹر کی کلاسیں لینا بھی لازم ہونا چاہئے ۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے طلباء کو ایسے ہنر بھی پڑھانے چایئیں جو سلسلہ تعلیم منقطع ہونے کی صورت میں ان کے کام آ سکیں۔
ہائی سکول بشمول سیکنڈری ایجوکیشن سے فارغ ہونے والے ہر طالبعلم کو کم از کم درج ذیل کلاسیں لینی چاہئے تاکہ وہ عالمی معیار پر پورا اتر سکے اور باہر کے تعلیمی ادارے ہمارے سرٹیفکیٹس کو کمتر نہ سمجھیں :
انگریزی / اردو : لینگویج، لیٹریچر، یورپین یا برصغیر کا ادب، ڈرامہ وغیرہ (ہر سال)
حساب: جیومیٹری، الجبرا، کیلکیولس، سٹیٹسٹکس (کم از کم تین سال)
سائنس: بیالوجی، کیمسٹری یا فزکس، ہیلتھ سائنس (کم از کم تین سال)
تاریخ:اسلامی تاریخ، عالمی تاریخ، ملکی تاریخ، یورپین تاریخ وغیرہ (کم از کم تین سال)
الیکٹیو مضامین: سائیکولوجی، اکنامکس، کمپیوٹر، فنون لطیفہ، فزیکل ایجوکیشن وغیرہ (کم از کم دو مضامین ہر سال)
غیر ملکی یا علاقائی زبان: فرنچ، عربی، چینی، فارسی، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو وغیرہ (کم از کم دو سال)
تکنیکی تعلیم: بجلی، پلمبنگ، کارپنٹری، کار ٹیکنیشن، نرسنگ، کلرک، ٹائیپنگ وغیرہ(کم از کم دو سال)
تفصیلاً عرض ہے کہ اگر کوئی طالب علم پہلے سال انگریزی/اردو لینگویج کا انتخاب کرتا ہے اور پاس ہو جاتا ہے تو وہ اگلے سال لیٹریچر پڑھے گا۔ یعنی ایک ہی مضمون کی اسے چار مختلف کلاسیں لینی پڑیں گی۔ اسی طرح ہر سال حساب کی مختلف کلاس لینا پڑے گی۔ ہر سال، ہر طالب علم کو کم از کم چھ مختلف مضامین کی کلاسیں لینا ہوں گی جس سے نہ صرف اس کا مطالعہ وسیع ہو گا بلکہ یونیورسٹی پہنچنے تک اس کے پاس یہ گنجائش ہو گی کہ وہ اپنا مستقبل کا لائحہ عمل طے کر لے یا تبدیل کر لے ۔ یہ اس لئے بھی لازم ہے کیونکہ ہمارے ہاں سائنس لینے والا طالب علم ہائی سکول سے لے کر ایف ایس سی تک وہی تین مضمون تھوڑے سے فرق سے لگاتار پڑھتا ہے اور بظاہر اس کا اس کی تعلیمی استعداد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس ہوتا یہ ہے کہ ہمارے سرٹیفیکیٹ پر وہی چند مضامین تواتر سے نظر آتے ہیں اور اگر نصاب کو دیکھا جائے تو بظاہر اس میں بھی کوئی خاص جدت نظر نہیں آتی۔
ہائی سکول کے نصاب میں کسی تبدیلی کی بظاہر ضرورت نظر نہیں آتی، ہاں اس کے اطلاق پر غور کرنا پڑے گا۔ ہم سائنس اور آرٹس کو دو مختلف گروپوں میں بانٹ کر پہلے ہی اپنے طلباء کو یہ مضمون پڑھا رہے ہیں۔ اب بس اتنی گنجائش ہونی چاہئے کہ سائنس کے طلباء سائیکالوجی اور اکنامکس جیسے مضامین بھی لے سکیں۔ دوسرے ممالک میں ہائی سکول کے چار سال میں طلباء کم از کم تئیس سے بچیس مختلف کورسز لیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ہائی سکول میں کل ملا کر آٹھ کورس لیتے ہیں جو کہ عرصہ دو سال پر محیط ہوتے ہیں (اگر یہاں میری معلومات غلط ہیں تو تصحیح کر دیں)۔ اسی طرح ایف ایس سی میں ہمارا طالب علم سات کورس لیتا ہے ۔ جہاں تک میرے علم میں ہے ، ہمارا طالبعلم جب اے لیول کا امتحان دیتا ہے تو اس سے زائد پرچے دیتا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہائی سکول اور ایف اے میں ہم اپنے ذرائع کو صحیح طور پر بروئے کار لائیں اور اپنی نئی نسل کو مقابلہ کی دوڑ میں برابر کا موقع دیں۔
ایسے طالبعلم جو تعلیمی صلاحیتوں میں قدرے کم ہیں، ان کے لئے ہائی سکول کے چار سال میں سے دو سال صرف تکنیکی ٹریننگ ہونی چاہئے تاکہ وہ سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ کو ذریعہ معاش ڈھونڈنے کے لئے بھی استعمال کر سکیں۔
انڈر گریجویٹ، گریجویٹ، اور پوسٹ گریجویٹ
اس وقت دنیا میں سیکنڈری سکول بارہ سے تیرہ سال میں کروایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح بی اے بھی چار سال پر محیط ہے ۔ سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈیا، ان سب ممالک میں بی اے اور بی ایس سی چار سال کا ہی ہے ۔ یہاں تک کہ عرب ممالک میں بھی زیادہ تر انڈر گریجوئیٹ ڈگری چار سال میں ہوتی ہے ۔ مگر ہمارے ہاں ابھی بھی بی اے دو سال میں ہو رہا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ تین سال میں جسے ہم بی اے آنرز کا نام دیتے ہیں۔ باہر کے تقریباً سب ممالک میں ہائی سکول کی طرح بی اے میں بھی مضامین میں تنوع پایا جاتا ہے ۔ دو سال کے کورسز مقامی زبان سے لے کر حساب، تاریخ، اور اختیاری مضامین پر مشتمل ہو تے ہیں اور تقریباً دو سال ہی "میجر” پر صرف کیے جاتے ہیں۔ اکثر دنیا میں ایک سے زیادہ میجر بھی ایک ہی وقت میں کیے جا سکتے ہیں۔ مدت اور کورسز کی کمی کی وجہ سے ہمارے ہاں کے ماسٹر کو باہر کے ممالک میں بمشکل بی اے کے برابر مانا جاتا ہے اور ہمارے اکثر گریجویٹ یہاں پھر سے ماسٹرز کرتے نظر آتے ہیں۔ باہر کے ممالک میں دو سال کے بی اے کو اسوسیئیٹ ڈگری کہا جاتا ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ایم فل صرف یورپ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ باہر کی بہت سی یونیورسٹیاں ایم اے کے ساتھ ہی پی ایچ ڈی کو ضم کر چکی ہیں۔ ہمارے ہاں سے باہر آنے والے زیادہ تر لوگ اس وجہ سے بھی بلو کالر جاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی ڈگری باہر کے ممالک میں کسی یونیورسٹی کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ بلکہ ذاتی مشاہدے کی بنا پر میں نے چند ایسے لوگ بھی دیکھیں ہیں جو پاکستان کی یونیورسٹی سے تو پی ایچ ڈی کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر لگے ہوئے تھے مگر یہاں بنیادی انگریزی کا امتحان بھی نہیں پاس کر سکے ۔ کہنے کا مقصد ہے کہ سترکی دہائی اور اس نئی صدی کے درمیان میں کہیں ہم نے اپنے تعلیمی معیار کو بہت پست کر دیا ہے ۔
امتحانی نظام
ہمارے بچے پہلی سے لے کر آٹھویں تک اپنے ہی اساتذہ کا تیار کردہ امتحان لیتے ہیں اور بخوبی پاس کرتے ہیں۔ بچے کی ساری کارکردگی اس کے استاد کی نظر سے دیکھی جاتی ہے ۔ پھر اچانک میٹرک، ایف ایس سی اور اس کے بعد کوئی ان دیکھا ہاتھ اور دماغ امتحانی پرچے بنانے لگ جاتا ہے ۔ ہم میں سے جو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں یا انسانی نفسیات کو تھوڑا سا بھی سمجھتے ہیں، وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہم میں سے ساٹھ فیصد سے زیادہ "visual learner” ہیں۔ میں کیونکہ خود ویژول لرنر ہوں تو جب تک کسی موضوع کو خود سے دیکھ نا لوں، بات کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے ۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہیں۔ کالج کی حساب کی کلاس میں مجھے چند پروف سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی اور امتحان میں وقت بہت کم تھا۔ سو سمجھنے کی بجائے پروف یاد کر ڈالے ۔ اب کیونکہ پروف یاد کیے تھے ، ان کی سٹیٹمنٹس پر رٹا نہیں مارا تھا تو پرچہ دیکھ کر سر چکرا گیا۔ پروفیسر نے صرف اپنا فونٹ سائز اور سوال لکھنے کا انداز بدلا تھا، سوال وہی تھے ۔ مجھے پہلے دس منٹ خود کو یہ یقین دلانے میں لگے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے اور یہ وہی سوال ہیں جو میں اچھی طرح سمجھتی ہوں اور یاد کر کے آئی ہوں۔
مثال دینے کا مقصد ہے کہ ایک طالبعلم کے لئے امتحان کا خوف ہی بہت زیادہ ہوتا ہے اور اوپر سے ہم ایک نادیدہ قوت جسے "پیپر سیٹر” کہتے ، کا بھوت بھی ان پر سوار کر دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اساتذہ پر اعتماد کریں اور انہیں موقع دیں کہ وہ اپنے شاگردوں کی علمی قابلیت کو جانچیں۔ اس کے ساتھ اگر اسسمنٹ ٹیسٹ یا SAT قسم کے کوئی امتحان رکھ لیں تو سالانہ امتحان سے کہیں بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ باہر کے امتحانی نظام پر انحصار کرنے کی بجائے ہمیں اپنے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ فیڈرل بورڈ سے لے کر مقامی بورڈز تک، سب کو اپنے معیار کو ایک سا کرنا پڑے گا۔ کسی دل جلے پروفیسر کو پرچہ بنانے کا کہنے کی بجائے اساتذہ خود سے سوالوں کا بینک بنائیں اور اس میں سے پرچہ تیار کریں۔ سالانہ امتحان کو مقامی انتظامیہ کے سپرد کر دینا چاہئے اور اپنے استاد اور شاگرد دونوں کو اعتماد اور تکریم دی جانی چاہئے۔
اختتامیہ
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر ایک تو قاری کی بیزاریت کا بھی ڈر ہے اور دوسرے الفاظ بھی ختم ہو رہے ہیں۔ بہت سے ذہنوں میں یہ سوال ہو گا کہ اس سب لکھنے کا کیا مقصد ہے ؟ میں اپنا اور قاری کا وقت کیوں ضائع کر رہی ہوں؟ یا پھر یہ کہ میں کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہوں؟
تعلیم اور میرا ساتھ بہت پرانا ہے ۔۔۔۔ چار سال کی عمر سے شروع ہوا تھا۔۔۔۔ساری زندگی پڑھتے اور تقریباً آدھی پڑھاتے گزر گئی۔۔۔۔ زندگی کے جس حصے میں یہ دونوں کام نہیں کیے وہ سمجھیں کہ بیکار گئی۔ میں نے جب پاکستان میں پڑھانا شروع کیا تھا تو ایک نئے سکول میں کنڈر گارٹن کی ٹیچر کی جاب ملی تھی۔ اگرچہ نصاب وغیرہ ایک سینئر ٹیچر نے تشکیل دیا تھا مگر ٹیکسٹ بکس کے انتخاب اور کلاس کے پہلے بیچ کو شروع کرنے کا موقع مجھے اور میری ایک بہت عزیز دوست کو ملا تھا۔ اپنی عقل اور سمجھ بوجھ کے مطابق ہم نے اسے بہت کامیابی سے چلایا تھا۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو بہت سی کمیاں اور خامیاں نظر آتی ہیں۔ اسی طرح میں نے کچھ عرصہ او لیولز کو بھی پڑھایا اور پھر جونیئر سکول میں بھی پڑھاتی رہی۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا مگر بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ تو ابھی ابتدائیہ ہی تھا۔
جب تک پاکستان میں تھی تو کچھ کمیوں کے باوجود میرا خیال تھا کہ ہمارا نظام تعلیم بہت اچھا ہے گو کہ ذاتی طور پر مجھے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تقابلی جائزے کے لئے سامنے کوئی اور نظام نہیں تھا۔ بی ایڈ کا نصاب اتنا فرسودہ تھا کسی نئی بات، کسی نئی سوچ کی جگہ نا بن سکی۔ جب امریکہ نوکری کے سلسلے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو پہلا تاثر یہی تھا کہ یہاں جان بوجھ کر ہماری ڈگری کو کمتر سمجھا جاتا ہے ۔ مگر جب تفصیلی معلومات حاصل کیں تو ادراک ہوا کہ ہم تو وقت میں کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔
میں یہاں پچھلے آٹھ سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ امریکی تعلیمی نظام کوئی ایسا خاص کامیاب تعلیمی نظام نہیں ہے مگر ہمارا اور ان کا فرق ہے کہ یہ لگاتار تحقیق کرتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں ایک انبار ہے ریسرچ کا جس میں رنگ و نسل سے لے کر معاشی اور معاشرتی حالات پر تحقیق کی گئی ہے ۔ مگر جو سب سے حیران کن بات ہے وہ اساتذہ کی ٹریننگ کے شعبے میں دیکھنے میں آتی ہے ۔ ایک ایسا ملک جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا وہ اپنے اساتذہ کو ٹریننگ دیتے ہوئے ایک ہی بات کی رٹ لگاتا ہے ۔۔۔۔” respect and accept diversity and assimilate” یعنی تنوع کو مان لیں اور اسے ضم ہونے دیں۔
اور اسی ایک بات نے مجھے افسردہ بھی کیا۔ پاکستان ایک ایسا ملک جو اسلام کے نام پر بنا وہاں اساتذہ اپنا کام کرنے میں ناکام رہے ۔ ہمیں تو مذہب کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بس ایک زبان کے فرق کو سامنے رکھ کر اپنے بچوں کو صبر و برداشت سیکھانی تھی۔۔۔۔ اور ہم اس میں بھی ناکام ہو گئے ۔۔۔۔کیوں؟
نصاب، کتاب، اور امتحانات سے شروع ہو کر بات یہاں ختم ہوتی ہے کہ ہم اچھے اساتذہ بنانے میں ناکام ہو گئے ۔ بطور قوم ہمارا شیرازہ بکھرنے میں جہاں انفرادی طور پر ہر گھر ذمہ دار ہے ، وہاں اجتماعی طور پر ہمارا تعلیمی نظام بھی ذمہ دار ہے ۔ اساتذہ کسی قوم کا دماغ ہوتے ہیں۔ ہم نے اس دماغ کو فرسودگی کا شکار کر دیا ہے اور یہ رکے ہوئے پانی کی مانند ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اساتذہ نے خود بھی اپنی راہ کھوٹی کی اور اپنی ذمہ داری سے ہاتھ جھاڑ لئے ۔
مجھ سے یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ میں نے پاکستان رہتے ہوئے کیا کیا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب آپ نظام کو غلط ہی نہ سمجھیں تو اس کو ٹھیک کیسے کریں گے ۔ دوسری بات یہ کہ میں نے اس نظام میں کام کرتے ہوئے ہمیشہ حق حلال کا کمایا۔ بہت سے مواقع ایسے آئے جب میرے اوپر مالی دباؤ تھا اور بہت سے والدین بھی چاہتے تھے کہ میں ان کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاؤں۔ مگر میں نے ٹیوشن پڑھانے سے انکار کر دیا۔۔۔۔پڑھانے سے نہیں۔۔۔۔ کئی بچوں نے گھر آ کر مجھ سے مدد لی اور پڑھتے رہے مگر میں انہیں یہ سمجھ کر پڑھاتی رہی کہ شاید میرے پڑھانے میں کوئی کوتاہی ہے جو ان بچوں کو اضافی مدد کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔بیشک کہ یہ میرا انفرادی فعل تھا اور صرف اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے تھا مگر اس بات کا بھی اظہار تھا کہ میں سسٹم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس کی کمی کا حصہ نہیں بن رہی۔
ایک اور وجہ جو تعلیم پر لکھنے کی ہے وہ میرا خود سے وعدہ ہے ۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ جب میں اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاؤں گی تو ان شاء اللہ پاکستان واپس آ کر اپنے ملک، اپنے لوگوں کے لئے کچھ کروں گی۔۔۔۔ ابھی یہ ایک سوچ ہے اور کچھ حتمی نہیں۔۔۔۔ مگر میرا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ سوچ سے ہی کامیابی یا ناکامی کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ مجھے اپنے آپ کو مطمئن کرنے اور اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔ تحاریر کا یہ سلسلہ اس کی ایک کڑی ہے ۔ میں اس زاویے سے پچھلے بہت سال سے سوچ رہی ہوں مگر ابتدا کے لئے کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا تھا۔ پھر ایک دن ایسے ہی خیال آیا کہ ابتدا مسائل کو جاننے سے شروع کی جائے ، اور نہ صرف مسائل پر بات کی جائے بلکہ اپنے نقطہ نظر کے مطابق اس کا حل بھی پیش کیا جائے ۔ یہ صرف میرا نقطہ نظر ہے ۔ میں نہیں جانتی کہ یہ کتنا قابل عمل ہے یا اس کا اطلاق پاکستان کے آج کے حالات پر ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ میں بس یہ جانتی ہوں کے مجھے کچھ کرنا ہے پاکستان کے لئے ۔۔۔۔ اور یہ ایک لمبے سفر کا پہلا قدم ہو سکتا ہے !
آمنہ احمد