جب سے تشنہ اُس دہلیز سے پلٹی ہیں
میری آنکھیں آگ میں جلتی رہتی ہیں
مل جاتی ہے مہلت ماہِ تازہ کو
چہرے پر جب زُلفیں سایا کرتی ہیں
پہلا پہلا عشق جنونی ہوتا ہے
دل کو دیواریں بھی اچھی لگتی ہیں
مہندی سے اِک خواہش اپنے ہاتھوں پر
سکھیاں لکھ کر چوری چوری پڑھتی ہیں
سانسیں بھی سینے میں گھٹ کر مر جائیں
سوچیں تو انسان کو ایسے ڈستی ہیں
جب سے اِک معصوم کا لاشا دیکھا ہے
میری گلیاں ہر گاڑی سے ڈرتی ہیں
سورج ، چاند ، ستارے کوٹھی والوں کے
شامیں کچے گھر میں جا کر ڈھلتی ہیں
بنجر آنکھیں ، گم صم لہجہ ، ناصر سا
ہجراں میں بس ایسی شکلیں بنتی ہیں
ناصر ملک