یوں ہی نہیں ہے اتنی منظر میں بے سکونی
خوابوں کا ہے تعص٘ب ، آنکھیں نہیں جنونی
مفلوج ہو تو جاتے بروقت وحشیوں نے
زیتون کو جلایا ، گیہوں کی شاخ بٌھونی
انساں کا پہلا پیشہ ہوگا شکار کرنا
کہتے ہیں ابتدائی وضع ِ قبا تھی اونی
بربادیوں سے خود کو آبادیوں میں لاۓ
پر امن بستیوں کی ہر داستاں ہے خونی
سی٘اروں پر فصیلیں یوں ہی نہیں اٹھاتے
سمجھے ہیں کائناتی پہلے تو بے ستونی
خطرہ براجمان ِ مسند سے آج بھی ہے
ہے مسئلہ ازل سے اپنا تو اندرونی
جائیں کہاں کہ اب بھی تہذیب کے محل میں
توثیق بد دعا ہے ، تصدیق بد شگونی
کیسے نہ لب پہ لائیں یزداں ، رسول ، حیدر
اپنے تو دل کی دنیا ویسے بھی ہے تکونی
ذکر ِ علی کرو ، کچھ محفل کو جوش آۓ
تقریب ِ آدمی٘ت لگنے لگی ہے سونی
روتے رہیں گے اس کو اہل ِ خرد ہمیشہ
منبر پہ قیس جس نے ہنس کر کہا ُ ُ سلونی ٗ ٗ
ضمیر قیس