آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریضمیر قیس

یوں ہی نہیں ہے

ضمیر قیس کی ایک اردو غزل

یوں ہی نہیں ہے اتنی منظر میں بے سکونی
خوابوں کا ہے تعص٘ب ، آنکھیں نہیں جنونی
مفلوج ہو تو جاتے بروقت وحشیوں نے
زیتون کو جلایا ، گیہوں کی شاخ بٌھونی
انساں کا پہلا پیشہ ہوگا شکار کرنا
کہتے ہیں ابتدائی وضع ِ قبا تھی اونی
بربادیوں سے خود کو آبادیوں میں لاۓ
پر امن بستیوں کی ہر داستاں ہے خونی
سی٘اروں پر فصیلیں یوں ہی نہیں اٹھاتے
سمجھے ہیں کائناتی پہلے تو بے ستونی
خطرہ براجمان ِ مسند سے آج بھی ہے
ہے مسئلہ ازل سے اپنا تو اندرونی
جائیں کہاں کہ اب بھی تہذیب کے محل میں
توثیق بد دعا ہے ، تصدیق بد شگونی
کیسے نہ لب پہ لائیں یزداں ، رسول ، حیدر
اپنے تو دل کی دنیا ویسے بھی ہے تکونی
ذکر ِ علی کرو ، کچھ محفل کو جوش آۓ
تقریب ِ آدمی٘ت لگنے لگی ہے سونی
روتے رہیں گے اس کو اہل ِ خرد ہمیشہ
منبر پہ قیس جس نے ہنس کر کہا ُ ُ سلونی ٗ ٗ

ضمیر قیس

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button