چھوٹی سی ایک عرض ہے میری جناب سے
آنکھوں کی مے پلا کے بچائیں شراب سے
زاہد شراب منہ سے جو تیرے کبھی لگی
مجھ کو ڈرا سکے گا نہ پھر تو عذاب سے
شبنم کے چند قطروں کو پھولوں سے چھین کے
کیا مل گیا ہے پوچھے کوئی آفتاب سے
مانا کہ ہم سے ہو کے جدا تم اداس ہو
ہم بھی رہے کہیں کے نہ اس انقلاب سے
سیکھیں اسے بھی پڑھ کے محبت ہے چیز کیا
کچھ فائدہ اٹھائیے دل کی کتاب سے
اس تشنگی میں کھائے ہیں میں نے بڑے فریب
دریا بھی لگ رہے ہیں جو مجھ کو سراب سے
کیا لطف رہ گیا ہے پھر اس شخص کے لیے
محروم ہو گیا ہے جو ناصرؔ شراب سے
حکیم ناصر