تُو ہی منظورِ نظر ہے خواب کی تعبیر کا
رُخ بدل کر رکھ دیا تو نے مری تقدیر کا
داستانِ لیلہ و مَجنوں بھی ہے محوِ سفر
کر رہا ہے آج بھی رانجھا تعاقب ہِیر کا
وہ اسیرِ ظُلمتِ شب ہی رہے گا عمر بھر
جس کو اندازہ نہیں الفاظ کی تاثِیر کا
یہ مکافاتِ عمل کے ماسِوا کچھ بھی نہیں
بن گیا ہوں مَیں نِشانہ خُود ہی اپنے تِیر کا
اب کسی کی سَمت مُڑ کر دیکھتا کوئی نہیں
رُک گیا ہے سِلسلہ انسان کی توقیر کا
تُو علی کوثر بھروسہ کر خدا کی ذات پر
مل ہی جائے گا لکھا تُجھ کو تری تقدیر کا
علی کوثر