ابھی جذبۂ شوق کامل نہیں ہے
کہ بے گانۂ آرزو دل نہیں ہے
کوئی پردۂ راز حائل نہیں ہے
ستم ہے وہ پھر بھی مقابل نہیں ہے
سر آنکھوں پہ نیرنگی بزمِ عالم
جسے خوفِ غم ہو، یہ وہ دل نہیں ہے
مسرت بداماں ہوں سیلاب غم میں
کوئی موج محروم ساحل نہیں ہے
محبت سے بچ کر کہاں جائیے گا
تلاطم ہے آغوشِ ساحل نہیں ہے
وہ کس نازو انداز سے کہہ رہے ہیں
شکیل اب محبت کے قابل نہیں ہے
شکیلؔ بدایونی