رکھنا نہیں ہے اس کو اب اپنے دھیان میں
حائل ہے پر یہ دل بھی مرا درمیان میں
آیا تھا پل گزار کے پکے یقین سے
لیکن وہ سارے ڈھل گئے کچے گمان میں
غربت سے مر رہے ہیں ملازم مگر وہاں
دولت برس رہی ہے اگرچہ دکان میں
اُکھڑے ہوئے دریچوں کو میری نظر سے دیکھ
ہیرے جٙڑے ہیں یادوں کے خستہ مکان میں
عمرِ رواں کی شام میں ابلیس کے لیے
توبہ کا ایک تیر ہے میری کمان میں
غیروں کی بولیوں سے تو ملتا نہیں گھیان
حاصل کرو یہ علم تم اپنی زبان میں
باطل ہمارے سر پہ ہے خالدؔ مگر یہاں
شمشیر رکھ کے بیٹھے ہیں ہم تو میان میں
اویس خالدؔ